بھئی کہاں غائب رہے!
الٹے سیدھے خیال آرہے تھے۔
ناراض ہوگئے تھے کیا؟
ہم تو سوچ رہے تھے۔ قلم برف باری کی نذر ہوگیا۔ اب تو جب برف پگھلے گی، تو کالم لکھنا شروع کریں گے۔
میاں لکھتے رہا کرو۔ خیر خبر ہی مل جاتی ہے۔
دوست کا نام دیکھ کر جی خوش ہوجاتا ہے۔ ورنہ کالم میں تو پتا نہیں کیا الم غلم دیتے ہو۔ مفت میں تصویر بھی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ بھاڑ میں جائے ایسی کالم نگاری، پہلے تو دنوں کا وقفہ آجاتا تھا، پھر ہفتوں کا وقفہ شروع ہوگیا۔ اب مہینوں کے گیپ سے لکھوگے، تو فائدہ ہی کیا ہے؟
بھئی! اگر لکھ نہیں سکتے، تو مت لکھو۔
تو اب تم پھر کالم کے بہانے نثری شاعری پڑھواؤگے۔
دیکھو، اب کے اگر تم غائب ہوئے، تو بہت ماریں گے۔
یہی ہوتا ہے پینڈوؤں کو سر پر چڑھانے کا انجام، ہم نے تھوڑی سی لفٹ کیا کرادی کہ تم اپنی اوقات بھول گئے۔
بھئی، یہ کیا کہانیاں لکھنے بیٹھ گئے تھے۔ اخباری کالم تو اخباری کالم ہی ہونا چاہیے…… تم نے داستانِ امیر حمزہ شروع کردی تھی۔
بھئی، ہم تو ذرا زبان کا مزہ لینے کے لیے پڑھتے تھے تمہارا کالم، پھر تم غائب ہی ہوگئے۔
بھئی وہ کیا نام تھا، تمہارے علاقے کا، ’’مارتونگ!‘‘ کیا عجیب نام ہے۔ اور وہ حکیم صاحب کیا واقعی وہ اتنے ماہر ہیں؟ ہاں، ہمت تو نہیں پڑتی وہاں جانے کی، دیکھتے ہیں اگر کبھی موقع ملا تو، لکھا کرو، دور دراز علاقوں کے بارے میں پڑھ کر لطف آجاتا ہے۔
اچھے خاصے لوگ جاننے لگے تھے۔ کم سے کم یہی سوچ کر لکھتے رہتے۔ ہاں، ہاں بے وقوفوں کے سینگ تو ہوتے نہیں، ورنہ تمہارے اتنے بڑے ہوتے کہ دور سے نظر آجاتے۔
وہ جو کہتے ہیں، جتنے منھ اتنی باتیں، تو اس کا عملی تجربہ اس بار کراچی آکر ہوا۔ الفاظ کی درستگی، سختی اور بے تکلفی کے مختلف رنگوں میں بات ایک ہی تھی۔ تم نے کالم لکھنا کیوں بند کردیے؟ بلکہ ایک بہت ہی قریبی دوست جو کراچی کی اخباری دنیا کے نبض شناسوں میں سے ہیں، بہت ہی راز دارانہ لہجے میں پوچھنے لگے۔ ادارہ سے اختلاف رائے تو نہیں ہوگیا؟
بھئی، جب آدمی لکھتے لکھتے غائب ہوجاتا ہے۔ تو ذرا سمجھ دار قسم کا قاری فوراً سوچنا شروع ہوجاتا ہے۔ ہو نہ ہو،اخبار کے مالکان سے کوئی کھٹ پٹ ہوگئی ہوگی۔ اخبار کی پالیسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ پالیسی اس پوشیدہ چٹان کو کہتے ہیں، جس سے جانے انجانے میں ٹکرا کر کئی جہاز غرقاب ہوجاتے ہیں۔ مَیں نے تو سوچ رکھا تھا، کالم کا دروازہ کھول کر آجاؤں گا۔ مسکرا کر سب سے ہیلو ہیلو کہوں گا۔ اپنے غائب ہونے کا کوئی لمبا چوڑا سبب نہیں بتاؤں گا۔ بس جی، کچھ مسائل تھے، جنھوں نے ہاتھ پاؤں باندھ دیے تھے۔ اتنا کہہ کر سب دیکھتی آنکھوں میں اپنے لیے موجود اپنائیت کی تحریر پڑھوں گا۔ اور ایک خوش گوار دوستانہ انداز سے سر جھٹکتا ہوا دوبارہ اپنا کام شروع کردوں گا۔
مجھے یقین تھا پڑھنے والے معاف کردیں گے۔ وہ اتنی سختی نہیں کریں گے، لیکن اب مجھے معلوم ہوگیا ہے، یہ معاملہ خاصا سنجیدہ ہے۔ مجھے اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ میں مذاق نہیں کررہا بلکہ اپنے پڑھنے والوں سے واقعی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
ہاں! واقعی میں ثابت کردوں گا۔

…………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔