عید سے پہلے ہی سوات میں سیاسی سرگرمیوں اور آئندہ انتخابات کے لئے مہم کا آغاز ہوچکا تھا۔ اب عید الاضحی کی چھٹیوں کے بعد باقاعدہ طور پر انتخابی مہم کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ 2018ء کے انتخابات کے لئے سوات کے دو قومی اور سات صوبائی حلقوں کے لئے مختلف سیاسی جماعتوں کے اُمیدواروں نے پارٹی ٹکٹ کے لئے اپنی جماعتوں کو درخواستیں دی ہیں۔سوات کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 29 میں تحریک انصاف کے موجودہ ایم این اے مراد سعید اور سعید خان ڈھیرئی کے علاوہ دیگر کارکنان بھی ٹکٹ کے خواہشمند ہیں۔اس حلقہ میں پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ن لیگ سے حال میں پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے شہزادہ میاں گل شہر یا امیر زیب کو دیئے جانے کا امکان ہے۔ اے این پی کی جانب سے سابق ایم این اے مظفر الملک کاکی خان، سوات بار کے سابق صدر حضرت معاذ ایڈووکیٹ، شیر شاہ خان برہ بانڈئی اور شیراز خان نے ٹکٹ کے لئے درخواستیں جمع کی ہیں۔ اے این پی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حلقہ کے ٹکٹ کے لئے مظفر الملک کاکی خان اور حضرت معاذ ایڈووکیٹ میں سے کسی ایک کو پارٹی ٹکٹ دیا جائے گا۔ ن لیگ نے ابھی تک اس حلقہ پر اپنے اُمیدوار کا اعلان نہیں کیا ہے، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ انجینئر عمر فاروق کو ٹکٹ دیئے جانے کا امکان ہے۔ جمعیت علمائے اسلام سے اسحاق زاہد  کو نامزد کردیا ہے۔ اس طرح قومی وطن پارٹی نے اگر کسی جماعت سے اتحاد نہیں کیا، تو پھر امکان ہے کہ فضل الرحمان نونو کو اس حلقہ سے اُمیدوار نامزد کیا جائے گا۔ جماعت اسلامی نے ابھی تک اس حلقہ سے انتخاب لڑنے یا نہ لڑنے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

افضل خان لالا

مرحوم افضل خان لالا

سوات میں قومی اسمبلی کے دوسر ے حلقہ این اے 30 سے تحریک انصاف کے موجودہ ایم این اے سلیم الرحمان کو دوبارہ ٹکٹ ملنے کا امکان ہے، تاہم پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حلقہ سے موجودہ صوبائی وزیر محمود خان کو لانے کا بھی امکان ہے۔ اس حلقہ سے ن لیگ کے صوبائی صدر امیر مقام ن لیگ کے اُمیدوار ہوں گے۔ مرحوم بزرگ سیاستدان افضل خان لالا کے فرزند بریگیڈئر (ر) ڈاکٹر سلیم خان نے اس حلقہ سے ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے اے این پی کو درخواست دی ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے کمال خان شمع خیل متوقع اُمیدوار ہوسکتے ہیں۔ سابق صوبائی وزیر زراعت قاری محمود بھی اس بار صوبائی اسمبلی کے بجائے اس حلقہ سے قومی اسمبلی کے اُمیدوار ہوں گے۔ جماعت اسلامی کی جانب سے اس حلقہ سے سابق ایم این اے ڈاکٹر فضل سبحان کو ٹکٹ دیئے جانے کا امکان ہے۔

فضل حکیم

فضل حکیم

سوات کے سات صوبائی حلقوں میں سب سے اہم اور شہری حلقہ پی کے 80مینگورہ میں تحریک انصاف کے موجودہ ایم پی اے فضل حکیم کو ٹکٹ دیئے جانے کا امکان ہے، تاہم ضلعی کونسلر ضیاء اللہ جانان، تحصیل کونسلر زاہد خان المعروف باز خان اور دیگر رہنما بھی ٹکٹ حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔

محمد امین

محمد امین

جماعت اسلامی ضلع سوات کے امیر اور سابق ایم پی اے محمد امین اس حلقہ سے جماعت اسلامی کے اُمیدوار نامزد ہیں اور اُن کو اس حلقہ سے سب سے مضبوط اُمیدوار تصور کیا جارہا ہے۔ کیونکہ پچھلے انتخابات میں بھی انہوں نے بھاری ووٹوں کے ساتھ دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ اے این پی کے ٹکٹ کے لئے سابق صوبائی وزیر واجدعلی خان، ضلعی سینئر نائب صدر خواجہ محمد خان اور حضرت معاذ ایڈووکیٹ، سابق ناظم فضل معبود بابو اور سابق ناظم حاجی رضا خان نے ٹکٹ کے لئے درخوا ستیں دی ہیں۔ن لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ یہ حلقہ اتحاد کی صورت میں اتحادی جماعت کو دے گی۔ تاہم سوات ٹریڈرز فیڈریشن کے صدر عبدالرحیم، ضلعی کونسلر ارشاد خان اور سید صادق عزیز اس حلقہ سے الیکشن لڑنے کے خواہشمند ہیں۔ قومی وطن پارٹی نے آئندہ انتخابات کے لئے سابق اُمیدوار فضل الرحمان نونو کے بجائے رفیع الملک کامران کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جے یو آئی کی جانب سے سابق اُمیدوار مولانا حجت اللہ، اسحاق زاہد اور اعجاز خان بھی ٹکٹ کے حصول کی دوڑ میں شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے ضلعی جنرل سیکرٹری اقبال حسین طوطا اور شمشیر علی خان ایڈووکیٹ امیدوار ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 81 سے ن لیگ کے صوبائی صدر امیر مقام نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حلقہ سے تحریک انصاف کے ایم پی اے عزیز اللہ گران، صوبائی رہنما عدالت خان، اے این پی سے سابق ایم پی اے اور ضلعی صدر شیر شاہ خان، عبداللہ یوسفزئی اور تحصیل کونسلر عبدالکریم نے ٹکٹ کے لئے درخواست دی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر عرفان چٹان اور جے یو آئی کے اُمیدوار سید حبیب علی شاہ کے ہونے کا امکان ہے۔ پی کے 82سے تحریک انصاف کے ایم پی اے ڈاکٹر امجد، اے این پی سے سابق ایم پی اے وقار خان، تحصیل ناظم کبل رحمت علی جماعت اسلامی، مختیار رضا خان پیپلز پارٹی، اجمیر خان اور تلاوت خان ن لیگ کے اُمیدوارہیں۔ جے یو آئی نے اس حلقہ پر ابھی تک اُمیدوار کا اعلان نہیں کیا لیکن امکان ہے کہ سابق ایم پی اے عرفان اللہ کو اس حلقہ پر ٹکٹ دیا جائے گا۔ پی کے 83پر تحریک انصاف کے موجودہ وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی محب اللہ خان، ن لیگ کی جانب سے جلات خان،سید افضل شاہ ڈسٹرکٹ کونسلر، تحصیل نائب ناظم حنیف خان، فیروز شاہ اےڈووکیٹ، عظمت علی خان، اے این پی سے سابق ایم پی اے رحمت علی خان، جماعت اسلامی کی جانب سے حافظ اسرار، جے یو آئی کی جانب سے اشفاق خان، پیپلز پارٹی سے کمال خان شمع خیل اور قومی وطن پارٹی سے بہادر شیر خان یا نصر اللہ خان اُمیدوار ہوسکتے ہیں۔

صوبائی وزیر کھیل محمود خان

صوبائی وزیر کھیل محمود خان

پی کے 84 میں تحریک انصاف کے صوبائی وزیر کھیل محمود خان یا اُن کے بھائی اُمیدوار ہوسکتے ہیں۔ اے این پی سے سابق صوبائی وزیر ایوب خان اشاڑے، جے یو آئی سے قاری محمود، حق پرست گروپ کے ڈاکٹر امجد علی ابھی تک اُمیدواروں کی فہرست میں ہیں۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی، قومی وطن پارٹی اور جماعت اسلامی نے اس حلقہ میں ابھی تک اُمیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں کیا ہے۔ پی کے 85 میں اے این پی کے ٹکٹ پر دو بار ایم پی اے منتخب ہونے والے موجودہ ایم پی اے سید جعفر شاہ امیدوار ہوں گے۔ ن لیگ کی جانب سے امکان ہے کہ صوبائی صدر امیر مقام خود اس حلقہ سے بھی انتخاب میں حصہ لیں۔ امیر مقام کا اس حلقہ سے انتخاب نہ لڑنے کی صورت میں ٹکٹ سابق اُمیدوار میاں شرافت علی کو دیئے جانے کا امکان ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے سابق امیدوار یا پھر ملک جہانگیر خان کو ٹکٹ دیئے جانے کا امکان ہے۔ جماعت اسلامی کی جانب سے سابق اُمیدوار ملک کریمی یا موجودہ تحصیل ناظم حبیب اللہ ثاقب کو ٹکٹ دیئے جانے کا امکان ہے۔ پی کے86 میں دو بار ایم پی اے رہنے والے موجودہ ایم پی اے ڈاکٹر حیدر علی، مسلم لیگ ن کے پانچ مرتبہ ایم پی اے رہنے والے قیموس خان ، پیپلز پارٹی کے سابق امیدوار محمد شاہی خان اور جے یو آئی کے علی شاہ خان اےڈووکیٹ کو ٹکٹ دیئے جانے کا امکان ہے۔ اے این پی کی جانب سے ابھی تک کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا۔ عید کے بعد سوات میں تمام سیاسی جماعتوں نے بھر پور انداز میں انتخابی مہم کے آغاز کا اعلان کیا ہے اور امکان ہے کہ آئندہ انتخابات میں تمام امیدوار ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے ۔