عام طور پر ’’شوربا‘‘ (فارسی، اسمِ مذکر) کا اِملا ’’شوربہ‘‘ لکھا جاتا ہے۔
رشید حسن خان اپنی کتاب ’’اُردو کیسے لکھیں؟ (صحیح اِملا)‘‘، مطبوعہ ’’رابعہ بُک ہاؤس‘‘ کے صفحہ نمبر 118 پر ’’شوربا‘‘ کو صحیح اِملا مانتے ہیں۔
اس طرح ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’نور اللغات‘‘، ’’اظہر اللغات (مفصل)‘‘، ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘، ’’جدید اُردو لغت (طلبہ کے لیے)‘‘، ’’علمی اُردو لغت (متوسط) اور فارسی لغت ’’فرہنگِ عامرہ‘‘ کے مطابق دُرست اِملا ’’شوربا‘‘ ہے جب کہ اس کے معنی ’’پتلا سالن‘‘، ’’شروا‘‘، ’’جوس‘‘، ’’شورابہ‘‘، ’’یخنی‘‘، ’’آبِ گوشت‘‘ وغیرہ کے ہیں۔
جہانگیر اُردو لغت (جدید) اور علمی اُردو لغت (متوسط) ’’شوربہ‘‘ کو بھی صحیح اِملا مانتے ہیں۔
صاحبِ آصفیہ ’’شوروا‘‘ اور ’’شروا‘‘ کو ’’شوربا‘‘ کے متبادل الفاظ کے طور پر مانتے ہیں جب کہ صاحبِ نور ’’شوردا‘‘ کو۔
حسین میر کاشمیری کی ایک مزاحیہ نظم کا اِک شعر ’’شوربا‘‘ پر گویا مہرِ تصدیق ثبت کرنے کے لیے کافی ہے، شعر ملاحظہ ہو:
اے سکندر مرغ کا ہے شوربا آبِ حیات
خضر بھی اس کو اگر پی لے جواں ہوجائے گا