’’عاقبت نا اندیش‘‘ (فارسی، اسمِ صفت) کی جگہ عام طور پر ’’ناعاقبت اندیش‘‘ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
اس حوالے سے پروفیسر نذیر احمد تشنہؔ اپنی تالیف شدہ کتاب ’’نادراتِ اُردو‘‘ (مطبوعہ ’’الفیصل ناشران‘‘، سنہ اشاعت 2011ء) کے صفحہ نمبر 281 پر رقم کرتے ہیں: ’’عاقبت نااندیش: بات کا انجام نہ سوچنے والا۔ کوتاہ اندیش۔‘‘ موصوف آگے اسی صفحہ پر رقم طراز ہیں: ’’ناعاقبت اندیش لکھنا درست نہیں۔‘‘
نوراللغات میں پوری صفت (عاقبت نا اندیش) تو موجود نہیں البتہ ’’نااندیش‘‘ موجود ہے۔ ’’نا اندیش‘‘ کے ذیل میں یہ تفصیل بھی درج ملتی ہے: ’’بدیہی امر جس میں سوچنے کی حاجت نہ ہو۔ نہ سوچنے والا۔‘‘
دوسری طرف جتنے اشعار ہاتھ آئے سب میں مذکورہ صفت ’’ناعاقبت اندیش‘‘ ہی ملی۔ نہالؔ رضوی لکھنوی، بیدمؔ شاہ وارثی، سلطان رشکؔ، سید ظہیر الدین ظہیرؔ اور اختر سعید خان سبھی نے ’’عاقبت نا اندیش‘‘ کی جگہ اپنے اشعار میں صفت’’ناعاقبت اندیش‘‘ رقم کی ہے۔ نمونتاً بیدمؔ شاہ وارثی کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
دیکھ مٹ جائے گا ہستی سے گزر جائے گا
دلِ نا عاقبت اندیش انہیں یاد نہ کر