وکی پیڈیا کے مطابق موسیٰ جلیل (Musa Calil) سوویت تاتار شاعر، ڈراما نویس اور صحافی، 15 فروری 1906ء کو روسی سلطنت میں اورنبرگ صوبے کے چھوٹے سے تاتار گاؤں مصطفینہ میں ایک غریب کسان کے گھر پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم اورنبرگ کے خسینیہ مدرسہ میں حاصل کی۔ 1931ء میں کازان چلے گئے جہاں اپنے آپ کو تخلیقی و سماجی کام کے لیے وقف کر لیا۔ 1939ء میں انجمن مصنفین تاتارستان کے سربراہ منتخب ہوئے۔ جب حب الوطنی کی جنگِ عظیم شروع ہوئی، تب تک وہ سوویت تاتاری ادب کے رہنما تسلیم کیے جاتے تھے۔ وہ رضاکارانہ طور پر محاذ پر لڑنے گئے جہاں 1942ء کی گرمیوں میں وولخوفسکی محاذ پر شدید زخمی ہوئے اور بے ہوشی کی حالت میں دشمن نے قیدی بنا لیا۔ جنگی قیدیوں کے درمیان خفیہ فاشزم مخالف کام بڑی سرگرمی سے کیا۔
1939ء سے 1941ء تک تاتار اسٹیٹ اکیڈمک اوپیرا اور بیلٹ تھیٹر، کازان میں شعبۂ ادب کے سربراہ کے طور پر کام کیا۔ بعد ازاں ان کی خدمات کے اعتراف میں 1956ء میں تھیٹر کا نام موسیٰ جلیل کے نام سے موسوم کیا گیا۔
نازی جرمن خفیہ پولیس گستاپو نے ایک غدار کی جاسوسی پر انھیں اپنی تحویل میں لے لیا، جہاں انھوں نے ایک کمیونسٹ کے شایانِ شان حوصلے اور دلیری کا ثبوت دیا۔ فاشسٹوں کی قید میں اپنی مشہور و معروف موآبٹ جیل کی بیاض لکھی جسے خفیہ فاشزم مخالف کارکنوں کے سپرد کر دیا اور جو جنگ کے بعد شاعر کے وطن پہنچی۔
اعزازت:
1956ء میں لینن انعام ملا۔
1956ء میں کازان میں ’’تاتار اسٹیٹ اکیڈمک اوپیرا اور بیلٹ تھیٹر‘‘ان کے نام موسوم کیا گیا۔
1957ء میں ہیرو آف سوویت یونین کا اعزاز حاصل کیا۔
2014ء میں موسیٰ جلیل لائبریری کا افتتاح کیا گیا۔
25 اگست 1944ء کو پلوتزینسی (Pltzensee)، جرمنی میں دورانِ قید فاشسٹ جلادوں نے قتل کر دیا۔