وکی پیڈیا کے مطابق اسماعیل کدارے (Ismail Kadare) مشہور البانوی شاعر، ناول نگار اور ڈراما نویس، 28 جنوری 1936 ء کو گیرو کاسٹر، البانیہ میں پیدا ہوئے۔
یونیورسٹی آف تیرانا سے تعلیم حاصل کی۔ پھر ماسکو یونیورسٹی کے گورکی انسٹی ٹیوٹ برائے عالمی ادب میں پڑھے۔بطورِ صحافی 1960ء میں کام کرنا شروع کیا۔ یہ وہ سال تھا جب البانیہ نے سوویت یونین سے تعلقات منقطع کیے تھے، لیکن بطورِ شاعر اپنی ادبی زندگی کا آغاز وہ صحافت سے پہلے ہی کر چکے تھے۔ دو شعری مجموعے ’’یوتھ فُل انسپریشن‘‘ (جوان اُمنگیں) اور ’’خواب‘‘ کے نام سے 1954ء اور 1957ء میں منظرِ عام پر آ چکے تھے۔
1960ء میں نثر نگاری کی طرف رُخ کیا اور 1963ء میں اپنا پہلا ناول’’مردہ فوج کا جرنیل، بعد از جنگ البانیہ کا ایک مطالعہ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس ناول نے البانیہ میں اُن کا نام بنایا اور انھیں ملک سے باہر سفر کرنے اور اپنی تحریریں شائع کرنے کی اجازت بھی مل گئی، لیکن 1975ء میں حکام کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے۔ یوں اُن پر تین سال کے لیے اشاعت کی پابندی لگ گئی۔ حالات میں بہتری کے دو سال ہی گزرے تھے کہ 1981ء میں ’’خوابوں کا محل‘‘ لکھنے پر پھر حکام کے عتاب میں آ گئے۔ یہ کتاب عین اُسی دور کی پابندیوں کے بارے میں تھی جن کے تحت انھیں شائع ہونے سے روکا گیا تھا۔ پھر 1986ء سے اپنی تحریریں البانیہ سے سمگل کر کے فرانس بھجوانا شروع کر دیں، جہاں پر اُن کے ناشر نے یہ تحریریں محفوظ کرنا شروع کر دیں۔
1990ء میں البانیہ میں انور ہوکسا کی حکومت گرنے سے کچھ عرصہ قبل ان کو فرانس میں سیاسی پناہ مل گئی۔ ان کا کہنا ہے: ’ ’مطلق العنانی اور مسلمہ ادب ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ کیوں کہ یہ بات فطری ہے کہ ایک لکھنے والا کسی بھی آمر کا دشمن ہوتا ہے۔‘ ‘
شاید اسماعیل کے سلسلے میں یہ بات سچ بھی ثابت ہوئی۔ کیوں کہ البانیہ سے نکلنے کے بعد ہی وہ دنیا کو اپنے کام کی طرف متوجہ کر سکے۔ان کا نام نوبل انعام کے لیے نام زد ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ 2005ء میں شروع ہونے والے بین الاقوامی بُکر پرائز کے سلسلہ کے انعام کا حق دار ان کو قرار دیا گیا۔