وکی پیڈیا کے مطابق علی اعجاز (Ali Ejaz) مشہور پاکستانی فلمی اداکار، 18دسمبر 2018ء کو لاہور میں حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال کرگئے۔
21 اکتوبر 1942ء کو قلعہ گجر سنگھ، لاہور میں پیدا ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی سے فراغت کے بعد بینکر کے طور پر اپنے کیریئر کی شروعات کی، لیکن کچھ عرصے میں دل اُچاٹ ہوگیا۔ فلموں کی طرف اس لیے آئے کہ پاکستانی فلمی صنعت کے معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف اُن کے بچپن کے دوست تھے ۔ منور ظریف اور اُن کے بڑے بھائی ظریف، دونوں فلمی صنعت میں اپنی اداکاری کا لوہا منوا چکے تھے۔ منور ظریف کے ساتھ دوستی ان کی اداکار بننے کی پہلی وجہ ثابت ہوئی۔ دونوں نے ایک ساتھ کبھی کام نہیں کیا،لیکن یہ اعزاز بھی صرف علی اعجاز کے حصے ہی میں آیا کہ جب منور ظریف کا انتقال ہوا، تو فلمی صنعت میں ان کے خلا کو پُر کرنے کے لیے یہی دوست آگے آیا اور اپنے کام سے دوستی کا دم بھرا۔
1967ء میں اپنے کیریئر کی پہلی فلم ’’انسانیت‘‘ میں اداکاری کی، جس کے ہدایت کار شباب کیرانوی تھے۔ اس فلم میں پاکستان کے تمام نمایاں اداکار کام کر رہے تھے، جن میں زیبا، وحید مراد، سلطان راہی، سلمیٰ ممتاز، فردوس، طارق عزیز، ننھا اور دیگر شامل تھے۔ اس فلم میں اُن کا کردار پٹیالہ سے تعلق رکھنے والے تاجر کا تھا۔ اس کردار میں انھوں نے اتنی جان ڈال دی کہ سیٹ پر موجود تمام افراد ان سے اسی انداز میں بات کرنے لگے تھے۔ یہی وہ فلم ہے ، جس میں انھوں نے ایک مزاحیہ گیت میں احمد رشدی اور آئرین پروین کے ساتھ اپنی آواز کا جادو بھی جگایا، لیکن یہ ان کے پورے کیرئیر کا ایک ہی گیت ہے۔ اس فلم کے ذریعے وہ فلم نگری کے شب وروزسے بھی واقف رہنے لگے۔
معروف صحافی عارف وقار کے لکھے ہوئے ایک ڈرامے ’’دبئی چلو‘‘ کو جب حد درجہ شہرت مل گئی، تو اسی خیال کو لے کر فلم بنائی گئی، جس میں علی اعجاز نے مرکزی کردار نبھایا۔ اس فلم کی مقبولیت سے ان کی شہرت کو پَر لگ گئے۔ 1979ء میں یہ فلم ریلیز ہوئی جس میں اس وقت کے بہت اہم اداکاروں نے کام کیا، جن میں ممتاز، دردانہ رحمان، اقبال حسن، اسلم پرویز، نغمہ، علاؤالدین، قوی اور ننھا شامل تھے۔ یہاں سے علی اعجاز کا اصل فلمی کیریئر شروع ہوا ۔ ان کی مزاحیہ جوڑی معروف اداکار ننھا کے ساتھ مقبول ہوئی، جب کہ بطورِ ہیروئن ممتاز کا نام ان کے ساتھ وابستہ ہوا۔ پھر ان دونوں جوڑیوں نے 80ء کی دہائی میں پاکستانی فلمی صنعت میں راج کیا اور بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ ’’سالا صاحب‘‘ جیسی فلم اس حسین دور کی یادگار ہے جس کے نقش فلم بینوں کے دلوں پر مدتوں رہیں گے۔
علی اعجاز نے تقریباً 106 میں فلموں میں کام کیا، جن میں پنجابی فلموں کی تعداد 84ہے جب کہ 22 اُردو فلمیں تھیں۔ ان کے حصے میں ایک پشتو فلم بھی آئی، جس کا نام ’’خانو دادا‘‘ تھا۔ مزاحیہ اداکاری کے علاوہ سنجیدہ کرداروں میں بھی اپنے آپ کو منوایا۔ حکومتِ پاکستان نے 14اگست 1993ء کو صدارتی تمغائے حسنِ کارکردگی عطا کیا ۔