وکی پیڈیا کے مطابق آصف فرخی (Asif Farrukhi) پاکستانی اُردو افسانہ نگار، صحافی، مترجم اور محقق، 1جون 2020ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
16 ستمبر 1959ء کو کراچی میں نام ور ادیب ’’اسلم فرخی‘‘ کے گھر پیدا ہوئے۔ آصف کی والدہ ڈپٹی نذیر احمد کی پڑپوتی اور شاہد احمد دہلوی کی بھتیجی تھیں۔
’’ڈاؤ میڈیکل کالج، کراچی‘‘ سے ایم بی بی ایس کیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے ماسٹرز کی ڈگری لی۔ آغا خان یونیورسٹی کراچی، اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسف اور حبیب یونیورسٹی کراچی میں عملی زندگی کی جد و جہد میں حصہ لیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس والوں کے لیے ادبی میلوں کا اہتمام کرتے رہے۔ ملکی و غیر ملکی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ ادبی جریدے ’’دنیا زاد ‘‘ کی ادارت اور ایک اشاعتی ادارے ’’ شہر زاد ‘‘ کی انتظامی ذمے داریوں کو بہ خوبی نبھایا۔ ساتھ ہی ساتھ افسانے لکھے، تراجم کیے، تنقید کی، اخبارات میں کالم لکھے، حتیٰ کہ شاعری بھی کی۔
’’آتش فشاں پر کھِلے گلاب‘‘، ’’اِسم اعظم کی تلاش‘‘، ’’چیزیں اور لوگ‘‘، ’’شہر بیتی‘‘، ’’شہر ماجرا‘‘، ’’میں شاخ سے کیوں ٹوٹا‘‘، ’’ایک آدمی کی کمی اور ’’میرے دِن گزر رہے ہیں‘‘ ان کے افسانوں کے مجموعے ہیں اور ’’عالم ایجاد‘‘ اور ’’نگاہ آئینہ سازمیں‘‘ تنقیدی مضامین کی کتب۔ نہ صرف آئن رینڈ، ہرمن ہیسے، گریش کرناڈ، ستیہ جیت رائے، اگنارزیو سلونے، ساتو کی زاکی، ارنستو سباتو، عمر ریوابیلا، نجیب محفوظ، ارون دھتی رائے، رفیق شامی اور کئی دوسرے اہم لکھنے والوں کے انگریزی متون ترجمہ کرکے اُردو میں منتقل کیے بلکہ انگریزی میں بھی مسلسل لکھتے رہے۔ اپنے ہاں کے ادب کے کئی اہم موضوعاتی انتخاب مرتب کیے ہیں۔ ممتاز شیریں کے تنقیدی مضامین ’’منٹو نوری نہ ناری‘‘ فسادات کے افسانوں پر مشتمل کتاب ’’ظلمتِ نیم روز‘‘ اور ’’منٹو کا آدمی نامہ‘‘ کے علاوہ دیگر متعدد کتب، ان کے اسی باب میں قابل رشک ادبی کارنامے ہیں۔