کامریڈ امجد علی سحابؔ کے ایک مضمون کے ’’صاحب شاہ صابرؔ، فن و شخصیت‘‘ مطابق صاحب شاہ صابرؔ (Sahib Shah Sabir) پشتو کے صاحبِ اُسلوب شاعر 3 اپریل 2007ء کو حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال کرگئے۔
9 مارچ 1956ء کو ضلع ملاکنڈ کے گاؤں سخاکوٹ (خیبرپختونخوا) میں پیدا ہوئے ۔ رسمی تعلیم کا آغاز چھے سال کی عمر میں ملاکنڈ کے ایک پرایمری سکول سے کیا۔ ملاکنڈ ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ انٹرمیڈیٹ تعلیم پشاور کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی۔ پشتو زبان سے بے پناہ محبت کی بنا پر پشاور یونیورسٹی سے اول پشتو ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد علمی پیاس بجھانے کے لیے اُردو ادب کے ساتھ ساتھ پولی ٹیکل سائنس میں بھی ماسٹرز کی ڈگری لی۔ یہ سلسلہ مذکورہ یونیورسٹی کے پشتو اکادمی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وقتی طور پر رُک گیا۔
صابرؔ کے چند متفرق اشعار ملاحظہ ہوں:
یارانو دوی تہ بہ سہ صبر کوو
پریگدئی چی پاتی شی بے زڑہ ملگری
سہ دَ جلوس، سہ دَ جلسی، سہ دَ غزا شہیدان
مونگ بی ہنرہ پختنو سرہ بلا شہیدان
د بوڈئی غوندی پہ یو موٹی مالوچو
د یوسف د حسن زہ ھم خریدار یم
پہ دی کوسو کی دَ الفت بادونہ، نہ الوزی
صابرہؔ! دلتہ دَ الفت رنگونہ مہ لٹوہ
زمونگ وعدی د خکلو سنڑی نہ دی
چی رنگ بہ واڑوی ارزانی بہ شی
د چا پخی ماتے وے ، د چا لاری تہ ملا ماتہ وہ
ما بہ ترسو پوری پہ زان پسی راخکل ملگری
دلتہ پردی د چا د پخو زولنئی نہ جوڑیگی
دلتہ خو ہر سڑی تہ لاری نیسی خپل ملگری