ربِ کائنات نے انسان کو اس دنیا میں بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ جیسا کہ قرآن کریم کی سورۂ رحمان میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’اے گروہِ انس و جن! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے۔‘‘ لیکن پھر بھی خالق کائنات اپنے بندوں کو آزماتا بھی رہا ہے۔ یہ آزمائش عموماً ارضی و سماوی عذاب کی صورت میں ہوتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ (نعوذ باللہ) اپنے بندوں پر ظلم کرتا ہے بلکہ ان آفات اور عذابوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کے برے اعمال کو سبب اور ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کی سورۂ روم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’خشکی اور تری میں جتنی خرابیاں ظاہر ہوتی ہیں، لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہیں، تاکہ انہوں نے جو اعمال کئے ہیں اللہ ان میں سے کچھ کا مزہ ان کو چھکائے، تاکہ وہ باز آجائیں۔‘‘

خشکی اور تری میں جتنی خرابیاں ظاہر ہوتی ہیں، لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہیں، القرآن۔ (Photo: quranunion.co.za)

بدقسمتی سے عرصہ سے وطن عزیز میں پانی جیسی عظیم نعمت ہماری تباہی و بربادی کا سبب بنتی جا رہی ہے۔ ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ ہر تیسرے یا چوتھے سال برسات میں وطن عزیز سیلاب کا نشانہ بنتا ہے۔ بستیوں کی بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ بپھری ہوئی موجیں انسانوں کے لیے اژدھے بن جاتی ہیں۔ سیلاب میں ہزاروں مویشی زندگی کی تڑپ میں کاوشیں کرتے ہوئے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔ فصلوں کا ستیاناس ہوجاتا ہے اور ہزاروں مکانات، مساجد اور مدارس غرق آب ہوجاتے ہیں۔ مذکورہ بالا قرآنی آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رحمان و رحیم لوگوں کو ان کے پورے گناہوں پر نہیں پکڑتا، ورنہ اگر انسان کو اس کے پورے گناہوں کی سزا ملتی، تو روئے زمین پر ایک انسان کا وجود بھی باقی نہ رہتا۔
ذرا اپنے پاکستانی معاشرے پر نظر ڈالیں، کونسا پاپ ہے جو ہم میں نہیں؟ حدیث پاک میں آیا ہے کہ شیر خدا حضرت علی ؓ سے سرورِ کائناتؐ نے فرمایا کہ جب میری اُمت میں پندرہ افعال رواج پائیں، تو اس پر خدا کی طرف سے مصائب و آلام نازل ہوں گی۔ شیر خدا ؓ نے پوچھا کہ اے اللہ کے پیارے رسولؐ! وہ افعال کون سے ہیں؟ جواب میں اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ ’’جب زکوٰۃ کو لوگ تاوان سمجھنے لگیں، جب آدمی دوستوں سے اچھا سلوک اور والدین سے برا سلوک کرے، جب لوگ امانت میں خیانت کرنے لگیں، جب سود کو تجارت کا نام دیا جانے لگے، جب شراب کو شربت کا نام دے کر پیا جانے لگے، جب اس اُمت کے لوگ اگلوں پر طعن اور تنقید کرنے لگیں، جب آلاتِ موسیقی سنبھال سنبھال کر رکھے جائیں، جب ریشم کا لباس پہنا جائے، جب مالِ غنیمت چند ہاتھوں میں رہ جائے، جب شراب سر عام پی جانے لگے، جب آدمی کی عزت صرف اس لیے کی جائے تاکہ اس کے شر سے بچا جائے، جب ذلیل ترین آدمی قوم کا راہنما بن جائے، جب مساجد میں آوازیں بلند ہونا شروع ہوجائیں، جب سرکاری خزانے کو لوٹ کا مال سمجھا جائے اور جب آدمی بیوی کی اطاعت کرنے لگے۔‘‘

غور کامقام ہے کہ حدیثِ بالا کی باتیں ہم پر کہاں تک صادق آتی ہیں۔ عذاباتِ الٰہی سے بچاؤ کا طریقہ ہمیں آنحضرتؐ کے اقوال میں جگہ جگہ ملتا ہے، یہ کہ ہم اپنی اصلاح اور رجوع الی اللہ کریں۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجودمیں آیا ہے اور اس کی جدوجہد میں بزرگانِ دین اور علماء کا بھی بڑا کردار رہا ہے، لہٰذا حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ وہ خدا کا خوف کریں۔ ملک کے مفاد اور عوام کے حق میں فیصلے اور عملی اقدامات کریں۔ پانی کے ریز وائرز (ذخیرہ جات) اور ڈیم بنائیں۔ ذیل میں ہم نظیر اکبر آبادی کا ایک قطعۂ نظم پیش کرتے ہیں۔
دنیا عجب بازار ہے، کچھ جنس یاں کی ساتھ لے
نیکی کا بدلہ نیک ہے، بد دے بدی کی بات لے
میوہ کھلا میوہ ملے، پھول پھول دے پھل پات لے
آرام دے آرام لے دُکھ درد دے آفات لے
کلجگ نہیں کرجگ ہے یہ، یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اس ہات دے اس ہات لے

…………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔