جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں جمعہ ہے اور عید کا تیسرا دن ہے۔ عجیب بات ہے کہ وفاقی دارالحکومت سمیت کچھ اداروں میں آج ہی کے دن حاضری ہے۔ سویرے سویرے نوکر پیشہ لوگ گھروں سے نکلے ہوئے ہیں۔ ہمارے ادارے میں اتوار تک چھٹی ہے، اس لیے مَیں دفتر جانے کے لیے نہیں بلکہ ایک اور مقصد کے لیے گھر سے نکلا ہوں۔ ایک گلی سے نکل کر دوسری میں جا گھستا ہوں۔ ایک محلے کو زیرِ پا لا کے دوسرے محلے کے اسرار و رموز جاننے لگتا ہوں۔ یہ آج کا نہیں بلکہ عید کے شام سے معمول بنا ہوا ہے۔ مقصد صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ مسلمانوں نے قربانیاں کرکے آلائشوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا ہے؟ کیوں کہ مسلمانوں ہی کے لیے عظیم پیغمبرؐ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’صفائی ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ یہ الگ بات ہے کہ ہم یہ سبق بھول چکے ہیں۔
آج کی دنیا میں غیر مسلم ممالک میں صفائی کا اعلا نظام رائج ہے جب کہ ہماری حالت اس معاملہ میں ناگفتہ بہ ہے۔ خاص کر عیدِ قربان کے موقع پر تو گھر سے نکلنا مشکل تر ہوجاتا ہے۔ جگہ جگہ خون، انتڑیاں، اوجھڑیاں اور غلاظتوں کے ڈھیر۔ شہروں میں جہاں بڑے لوگ، اعلا افسر اور بابو طبقہ رہتا ہے، کچھ نہ کچھ سرکاری مشینری کام آہی جاتی ہے۔ یوں غلاظتوں کو ٹھکانے لگانے کا بندوبست ہوجاتا ہے۔ دیہاتوں میں مگر ایسی منظم سرکاری ادارہ جاتی صفائی کی جاتی ہے، نہ کوئی عوامی صفائی کا اہتمام ہی ہوتا ہے۔ بس انفرادی طور پر کسی نے کچھ کرلیا تو بہتر، ورنہ گلی گلی سب غلاظتیں بکھری پڑی رہتی ہیں۔ اگرچہ شہروں کے مقابلہ میں گاؤں میں ہمارے ہاں زیادہ صفائی ہوتی ہے کہ آلودگی وغیرہ زیادہ نہیں ہوتی۔ زندگی سادہ اور ماحول فطرت کے قریب تر ہوتا ہے، لیکن مجموعی شعور کی کمی آڑے آجاتی ہے۔ اگر اس پر کام کیا جائے، تو ہمارا ماحول اور بھی خوب صورت ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ اس دفعہ میرے گاؤں میں ہوا۔ عید گاہ میں اکثر لوگ جمع تھے۔ وعظ کے بالکل آخری لمحوں میں خطیب صاحب جو بڑے عالم بھی ہیں، نے نہایت خوبصورتی سے لوگوں کو ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ طریقہ بھی بتایا کہ کس طرح قربانی کے بعد غلاظتوں کو ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔
مَیں عید کے تین دن اپنے گاؤں میں گھومتا رہا۔ دو فائدے حاصل کرنا چاہتا تھا اور حاصل کیے بھی۔ ایک یہ کہ رشتہ داروں اور دوستوں کے ہاں حاضر ہوکر مبارک باد کا تبادلہ ہوا۔ دوسرا، گلی گلی گھومتے صفائی کی صورتِ حال کا اندازہ لگایا۔ پہلا مقصد تو خوب حاصل ہوا۔ کیا رشتہ دار اور کیا دوست، سب خوش ہوئے کہ خوشی کے دن تھے۔ کچھ کلام ہوا کچھ طعام کہ
’’رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے‘‘
دوسرا مقصد بھی بڑی حد تک حاصل ہوا۔ اس لیے کہ نہ ہونے کے برابر گلیوں میں غلاظت کو پایا۔ اکثر گلی کوچے بالکل صاف اور ایسے صاف کہ گزرنے والے کو محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہاں قربانی کی گئی ہے۔
اس سہ روزہ ’’کوچہ گردی‘‘ کا نتیجہ یہ نکالا کہ اب بھی دیہاتوں میں مسجد و منبر کا مقام اعلا ہے۔ یہ اور بات کہ مسجد و منبر بدقسمتی سے ان کے قبضے میں ہیں، جن کو سوائے نفرت پھیلانے کے کوئی کام نہیں آتا۔ وگرنہ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب منبر و مسجد کو معاشرے کی تربیت کے لیے استعمال کیا گیا ہے، تو پھر وہ معاشرہ مثالی بن گیا ہے۔ مثلاً جنوبی پنجاب کے ایک شہر میں ایک مسجد کے خطیب نے اصلاحِ معاشرہ کی ٹھان لی، تو بہت ہی قلیل وقت میں وہ معاشرہ تبدیل ہوگیا۔ اب وہاں بچیاں سکول جاتی ہیں۔ پورے گاؤں میں تعلیم شرح بڑھ گئی ہے۔ تمام گاؤں کے دکان داروں نے سگریٹ سمیت تمام نشہ آور اشیا کی فروخت سے انکار کردیا ہے۔ گاؤں کے قبرستان میں سارے قبر کچے ہیں کہ یہی سنتِ رسولؐ ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ گاؤں میں اب لوگوں نے جہیز لینے سے انکار کردیا ہے۔ یوں جہیز کی لعنت سے چھٹکارا پا کر لوگ خوشحال ہوگئے ہیں۔ اس طرح دیگر کام بھی ہوئے ہیں۔ یہ صرف ایک بندے کی وجہ سے جس نے منبر کا درست استعمال کیا۔ مسجد جو مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اور نظامِ زندگی کی اصلاح کا مرکز تھا اور ہونا چاہیے، وہ ہم نے ایک مولوی کے قبضے میں دیا ہوا ہے، جہاں صرف نفرت بھری باتیں ہوتی ہیں۔ نتیجتاً معاشرے میں نفرتوں کا راج ہے۔
اس عید پر میرے گاؤں کی صفائی بتا رہی ہے کہ اگر مسجد و منبر کا استعمال اصلاحِ معاشرے کے لیے ہو، تو یہ معاشرہ آسانی سے گلزار ہوسکتا ہے۔ یہاں نفرتوں کے بجائے محبتوں کا دور پھر سے شروع ہوسکتا ہے۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ [email protected] یا [email protected] پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔