تبصرہ: ندیم آصف عرشی
اس فلم میں سرمایہ دارانہ ترقی کے مکروہ چہرے پر پڑا نقاب بڑی خوب صورتی سے اتارا گیا ہے۔ جنوبی کوریا جس کی جی ڈی پی ڈیڑھ ٹریلین ڈالر اور فی کس آمدنی 30 ہزار ڈالر کے قریب ہے، سمجھنے کے لیے پاکستان سے اس کا موازنہ کریں، تو پاکستانیوں کی فی کس آمدنی 1500 سو کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ دس امیر ترین ممالک میں شمار ہونے والے، ٹیکنالوجی کی جدیدت میں دنیا میں جرمنی کے بعد دوسرے نمبر پر موجود اور کنزیومر بیسڈ اکانومی کے حوالے سے ماڈل کا درجہ پاجانے والے جنوبی کوریا میں انسانوں کی بڑی تعداد کیسی ذلت کی زندگی گزار رہی ہے؟ اس فلم میں یہ بڑی عمدگی سے دکھایا گیا ہے۔
سرمایہ داری کے ساتھ ایک آفاقی حقیقت جڑی ہوئی ہے، جسے کبھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا…… اور وہ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام امرا کے پُرآسایش اور جدید ترین رہایشی علاقوں کے ارد گرد انھی کی ہم جنس دوسری مخلوق کو پیرا سائٹ یعنی کیڑوں مکوڑوں میں تبدیل کرکے امرا کی آسایش بھری زندگی کا بڑا سہارا بناتا ہے۔ لال بیگ وغیرہ کیڑوں کی طرح ان انسان نما کیڑے مکوڑوں کا بھی فرض بن چکا ہے کہ انھوں نے امرا کے کچرے پر گزارا کرنا ہے، ان کے صاف ستھرے ماحول سے پرے رہ کر ان کی پھیلائی گندگی کو ڈی کمپوز کرنے کا کام کرنا ہے۔ ان کا امرا کی حدود میں گزر بھی مکمل طور پر ممنوع ہے۔ امرا کی گندگی پر پل تو سکتے ہیں، ان کے پھینکے چھلکوں کو اپنی زندگی کا سامان بنا سکتے ہیں، ان کی گندگی ختم کرنے کا کام تو کرتے ہیں، لیکن سامنا ہوتے ہی فوراً ان کے پُرآسایش ماحول سے بھاگ کر واپس اپنے ان سوراخوں یا جھونپڑیوں میں گھس جاتے ہیں، جہاں اندھیرے اور حبس کا راج ہے۔ اگر یہ کیڑے مکوڑے اُن ’’انسانوں‘‘ کی زندگی میں خلل کا باعث بنتے ہیں، تو کچلے جاتے ہیں۔
فلم میں ایسی ہی کیڑوں کی فیملی کا ’’انسانوں‘‘ کے خاندان کے ساتھ گزر بسر دکھایا گیا ہے۔ دلچسپ سکرین پلے، مضبوط سکرپٹ اور سالوں یاد رہنے والے ڈائیلاگز کے باعث بظاہر سماجی مسئلے پر بنی فلم ایک منٹ کے لیے بھی بور نہیں کرتی۔ فلم بین اختتامی سین تک اسے محض تفریح کے لیے بنی فلم سمجھ کر ہی لطف اندوز ہوتا ہے اور غیر محسوس طریقے سے انسانی معاشرے کے کریہہ چہرے سے بھی آشنا ہوجاتا ہے۔ فلم کا یہی کمالِ فن اسے دیکھنے کے قابل بناتا ہے۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ فلم کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے یہ پاکستان جیسے پس ماندہ صنعتی ملکوں کی زیادہ عکاسی لگتی ہے، بلکہ انسانی ذلت کا اتنا شدید منظرنامہ ترقی یافتہ ممالک کے لیے تصور کرنا محال لگتا ہے اور کہانی پاکستانی معاشرے سے زیادہ مماثل لگتی ہے…… لیکن بی بی سی نے اس حوالے سے سٹوری بھی کی ہے کہ جنوبی کوریا جیسے ’’ترقی یافتہ‘‘ ملک میں یہ کیڑے مکوڑے حقیقی وجود رکھتے ہیں۔
فلم سادگی سے اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام انسان کو حتمی/ تصوراتی ترقی تک پہنچا کر بھی کریہہ پہلو رکھے گا اور انسانی ذلت ختم کرنے کی بجائے مزید گہری کرتا ہے…… اور سرمایہ دارانہ ترقی، حضرتِ انسان کی ترقی نہیں، پستی بن چکی۔
(نوٹ:۔ فلم کو آسکر ملنے سے پہلے درج بالا تبصرہ کیا تھا، راقم)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔