تبصرہ: علی عمار یاسر
’’چاند کو گل کریں تو ہم جانیں‘‘ دراصل اُسامہ صدیق کے انگریزی ناول "Sniffing Out the Moon” کا ترجمہ ہے اور مترجم ہیں عاصم بخشی صاحب۔ کچھ تو تبصرے شان دار تھے، اور کچھ مترجم وہ ہیں جن کی میں بڑی قدر کرتا ہوں، سو یہ ناول منگوا لیا۔ اس پر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔
اسامہ صدیق نے اس ناول میں چھے زمانوں کا سفر کیا ہے۔ انسانی تاریخ کے چار ہزار سالہ سفر میں چھے مقامات پر قاری پڑاو کرتا ہے۔ یہ سفر وادیِ سندھ کی قدیم تاریخ سے شروع ہوتا ہوا گندھارا کی تہذیب سے گزرتا، مغل سلطنت میں ٹھہرتا اور پھر انگریز دورِ حکومت سے چلتا چلاتا اکیسویں صدی کے ابتدائی عشرے کے پاکستان کی کہانی بیان کرتا بالآخر آج سے کم و بیش ساٹھ سال بعد کے پاکستان تک پہنچ کر اختتام پذیر ہوتا ہے…… لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان چھے زمانوں میں سفر بالترتیب نہیں، بلکہ قاری ساتھ ساتھ ان سب زمانوں کے بارے پڑھتا رہتا ہے۔ یعنی ناول پڑھتے ہوئے آپ چھے زمانوں میں متوازی سفر کر رہے ہوں گے۔
ناول میں شروع میں لگ رہا تھا جیسے یہ قرۃ العین حیدر کے ’’آگ کا دریا‘‘ کی طرز پہ لکھا گیا ہے۔ کچھ مقامات پر ’’آگ کا دریا‘‘ کی یاد ضرور آتی ہے، لیکن یہ ناول اس سے تھوڑی مختلف کہانی اور تھیم لے کر چلتا ہے۔
ایک طایرانہ نگاہ دوڑائی جائے، تو ناول میں ایک ہی موضوع پر بات کی گئی ہے اور وہ ہے طاقت ور اشرافیہ کے ہاتھوں عوام کا استحصال۔ یوں لگتا ہے کہ سنہ 2084 قبل مسیح سے 2084ء کے چار ہزار سالہ سفر میں حاکم اور محکوم کے نام اور طریقۂ کار میں کچھ فرق ضرور آیا ہے، لیکن جبر و استحصال کا بنیادی نظام نہ صرف یہ کہ بدرجہ اتم موجود ہے بلکہ مزید مضبوط ہوا ہے۔
وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب کے متکبر پجاری ہوں یا گندھارا تہذیب کے اکھڑ مزاج بدھ بھکشو، وہ اپنے آپ کو بدلنے اور عوام اور حکم رانوں کے باہمی تعلقات میں تبدیلی پر رضامند نہیں۔ پاکستانی عدالتی نظام پر قابض مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ہاتھوں انصاف کی پامالی کی دردناک کہانی ہو یا سنہ 2084ء میں وسایل پر قابض ایک محدود اشرافیہ ہو، عوام کی کہانی وہی ہے۔ ظلم کی صرف شکل بدلی ہے، نظام کے کام کرنے کا طریقۂ کار بدلا ہے لیکن بنیادی مقصد وہی رہا ہے۔
ناول کا ایک شاید سب سے اہم موضوع ماحولیاتی تبدیلی ہے۔ وہی ماحولیاتی تبدیلی جس نے پہلے وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب کو ہڑپ کیا اور جس بارے اسامہ صدیق کی پیشین گوئی ہے کہ وہ چار ہزار سال بعد، یعنی آج کے عہد میں پھر انسانیت کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
اسامہ صدیق نے پیوٹن کے یوکرین پر حملے کرنے سے پہلے ہی روس اور مغربی دنیا کے درمیان بڑھتی چپقلشوں کی بھی پیشین گوئی اسی ناول میں کر دی اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا کہ یہ صرف وسایل پر قبضے کی جنگ ہے۔
اسامہ صدیق نے بہت سے ایسے کردار تشکیل دیے ہیں جو شاید ہزاروں سالہ انسانی تاریخ کے سدا بہار کردار ہیں، جو ہر دور، ہر عہد میں موجود رہے ہیں۔ قدیم وادیِ سندھ کا پجاری موجودہ عہد میں اپنی تمام تر بے حسی اور بے رحمی کے ساتھ موجود ہے۔ گندھارا تہذیب کے وہ بودھ بھکشو بھی بآسانی مل جائیں گے جو عوام میں گھلنے ملنے کو اپنے عالمانہ مقام و مرتبے کی توہین سمجھتے ہیں اور متحدہ آبی مرکز کی اشرافیہ تو شاید ابتدائے تاریخ سے ہی محدود وسایل پر قابض رہی ہے۔ حکم رانوں کے ہر جایز و ناجایز کام کی قانونی توجیح تلاش کرنے والے شریف الدین پیرزادہ کا کردار بھی شاید ہر عہد میں موجود رہا ہے۔ لیکن ’’چاند کو گل کریں تو ہم جانیں‘‘ صرف تاریک کردار ہی پیش نہیں کرتا بلکہ حوصلہ مند دلیر کردار بھی ہم سے متعارف کرواتا ہے۔
شریف الدین پیرزادہ کے مقابلے پر عاصمہ جہانگیر کا نام بھی پاکستان کی عدالتی تاریخ اور ناول میں درخشاں موجود ہے۔ قدیم وادیِ سندھ سے لے کر آج تک ہر عہد میں ایسے لوگ بہرحال موجود رہے ہیں جنھوں نے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو چیلنج کیا ہے اور طاقت ور اشرافیہ سے ٹکر لینے سے گریز نہیں کیا۔ اگرچہ اس کے عواقب ان کے لیے ہمیشہ اچھے نہیں رہے، لیکن ان کی صرف موجودگی ہی ہجوم سے ہٹ کر سوچنے والوں کے لیے بہت ہے۔
٭ ایک مجموعی تبصرہ:۔اب خوگرِ حمد کے گلہ کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ میری رائے میں ناول کا تھیم اچھا تھا، کردار اچھے تھے، کہانی اچھی تھی لیکن کم و بیش ساڑھے چار سو صفحات میں چھے زمانوں پر لکھنے کا مطلب ہے کہ مصنف ہر کردار اور ہر عہد کے ساتھ پوری طرح انصاف نہیں کرسکے۔ یوں لگتا ہے کہ ان کے ذہن میں بہت سے آئیڈیاز تھے، لیکن کہانی کا دایرہ بہت زیادہ پھیل جانے کی وجہ سے آخر میں سب کہانیوں کو اور کرداروں کو سمیٹنے کی کوشش میں کچھ تشنگی چھوڑگئے۔
مجھے ’’عہدِ جہانگیری‘‘ ناول کے مجموعی پلاٹ سے لگا کھاتا نظر نہیں آیا۔ کرداروں کو مضحکہ خیز بنانے کے چکر میں کچھ پھکڑپن پڑھنے کو ملا۔ یہ حصہ میری دلچسپی برقرار رکھنے میں بالکل ناکام رہا۔ اسی طرح متحدہ آبی مرکز والے حصے میں، میری ناقص رائے میں، کچھ بہتری کی گنجایش تھی۔ میری ذاتی رائے میں اگر اسامہ صدیق ’’چاند کو گل کریں تو ہم جانیں‘‘ میں چھے زمانوں پر ایک ساتھ لکھنے کے بجائے اگر ہر عہد پر علاحدہ سے ایک ناول لکھتے، تو ہمیں چھے شان دار ناول پڑھنے کو ملتے …… لیکن بہرحال، پاکستانی ادب میں یہ اپنے منفرد پلاٹ، موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے ایک اچھا اضافہ ہے۔ اردو ادب کے قارئین اس ناول کے طرزِ نگارش سے لطف اندوز بھی ہوں گے اور شاید ہم میں سے کچھ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ وہ کون لوگ ہیں جو چار ہزار سال سے وادیِ سندھ کے مکینوں پر حاکم ہیں، وہ کون ہیں جو محدود وسایل پر قابض ہیں اور اس قبضے کا اخلاقی جواز بھی ڈھونڈ لاتے ہیں؟ شاید ہم میں سے کچھ ان کرداروں کو پہچان جائیں جو بقولِ احمد فراز ’’کبھی بہ حیلہ مذہب اور کبھی بنامِ وطن غریبوں کو لوٹ لیتے ہیں۔‘‘
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
’’چاند کو گُل کریں تو ہم جانیں‘‘ (تبصرہ)
