ناولٹ ’’ابا‘‘ (1998ء) دراصل ’’خواب ساتھ رہنے دو‘‘ (افسانوی مجموعے) سے لیا گیا ہے۔ اس ناولٹ کا مرکزی کردار اُستاد کریم خان ڈائیور ہے جس کے گیارہ ٹرک چلتے ہیں۔ وہ اپنے قافلے کے ساتھ جہلم کے سفر پر ہے۔
’’ابھی تیری شادی نہیں ہوئی بیٹا ٹیڈی‘‘ استاد کریم خان نے کہا۔ ’’جس دن ہوگئی، اُس دن تیری سمجھ میں سب کچھ آ جائے گا۔ ابے! یہ جو بیوی ہوتی ہے نا، یہ ماں سے بھی دوہاتھ آگے ہوتی ہے۔ جس طرح بلڈوزر زمین کو سیدھا کر دیتا ہے، اسی طرح بیوی شوہر کو کر دیتی ہے۔ ایک دم الف کی طرح سیدھا۔‘‘
ڈرائیور اُستاد کی بیوی کو احتراماً ماں جی کہتے ہیں، جیسے فوج میں بڑے افسر کی بیوی کو بھی جوان سلیوٹ مارتے ہیں۔ صاحب کا چوکا نہ بھی ہو رہا ہو تو کروا دیتے ہیں۔ کیچ سیدھا ہاتھ میں آرہا ہو، تو ڈراپ کر دیتے ہیں۔ اُستاد اپنے شاگردوں کو بتاتا ہے کہ شادی کے بعد شروع کے پانچ دس سال وہ بیوی کو مارتا پیٹتا تھا اور وہ برداشت کرتی تھی، مگر جب بچہ نہ ہوا، تو اُس نے اُسے مارنا پیٹنا تر ک کر دیا۔
’’بچہ بڑی شے ہوتا ہے بیٹا! جیسے انجن کا آئل ہوتا ہے۔ نہیں ملے، تو انجن کے سیز ہونے کا خطرہ بڑھنے لگتا ہے۔ گیراج میں میرا ہاتھ صاف ہوتا جا رہا تھا۔ تنخواہ بڑھتی جا رہی تھی، مگر تنگی کے باوجود لڑنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ جب چھے سات سال گذر گئے، تو ایک دن اُس نے میرے ہاتھ پر چار پانچ ہزار روپے رکھ دیے، پھر اپنے کنگن اُتار کر رکھ دیے۔ پیسے اُس نے ٹرک کے لیے بچائے تھے۔ ساڑھے سات ہزار میں، مَیں نے پہلا سیکنڈ ہینڈ ٹرک خریدا۔ ٹرک ایک دم اسکریپ تھا، لیکن مَیں نے دو ہفتے رات دن کام کرکے اُس کا انجن گولی کر دیا۔ آج میرے پاس بارہ ٹرک ہیں…… بارہ نئے ٹرک۔ پر یہ میرے نہیں ہیں۔ اُس کے ہیں جس نے سات سال تک پیٹ بھر کر نہیں کھایا اور چار چوٹ کی مار کھا کے بھی اتنے پیسے اور زیور کریم خان کو بخش دیے۔ سمجھا بیٹا ٹیڈی! پر تو ابھی کیا سمجھے گا…… جس دن تیری بیوی تیرے لیے، تیرے گھر کے لیے کوئی بڑا کام کرے گی۔ اس دن تجھے اپنے اُستاد کی بات یاد آئے گی۔‘‘
ایک جاہل اور گنوار جو احسان فراموش اور خود غرض نہیں ہے کیسے حقیقت پسندانہ انداز میں اپنی بیوی کا ذکر کررہا ہے۔ اُس کے اندر ایک بڑا انسان موجود ہے۔ سارے ڈرائیور اپنے ساتھی بشیر کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ آئے تو کھانا شروع کریں۔ وہ آتا ہے، تو اُس کے ساتھ ایک دس سالہ لڑکا نصرو ہوتا ہے۔ اُستاد سمیت سب اُس سے استفسار کرتے ہیں کہ یہ کون ہے؟ بشیر بتاتا ہے کہ یہ لڑکا اُسے رستے میں ملا ہے او رکہتا ہے کہ تو میرا ابا ہے۔ سب کے سب حیران ہو جاتے ہیں۔ اُستاد تحقیقات کا آغاز کرتا ہے۔ لڑکا بتاتا ہے کہ میری ماں سال پہلے انتقال کرگئی۔ اُس نے مجھے ابا کی جو تصویر دکھائی تھی، وہ بشیر ہی کی تھی۔ میں ٹرک دھوکر اور صفائی کرکے روٹی روزی کماتا ہوں۔ ڈرائیور اُسے اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرتے ہیں، تو وہ سب کے کھانے کا جایزہ لے کر کھانے سے انکار کر دیتا ہے او رکہتا ہے کہ اُس کی امی نے کہا تھا کہ سبزی کھانا، گوشت مت کھانا، عادت خراب ہوجاتی ہے۔ اُستاد کریم خان اپنے اور اُس کے لیے گوبھی آلو منگوا لیتا ہے، جو وہ ذوق و شوق سے کھاتا ہے۔
بشیر کی بیوی اور دو بچے کراچی میں رہتے ہیں۔ وہ نصرو کو بیٹا ماننے سے انکاری ہے۔ اُستاد اُسے صاف کہتا ہے کہ وہ نصرو کو اپنے ساتھ کراچی میں بیوی بچوں کے ساتھ رکھے۔ بشیر ’’حکمِ حاکم مرگِ مفاجات‘‘ کے مصداق خاموشی اختیار کرلیتا ہے مگر سکھر میں اچانک غایب ہو جاتا ہے اپنا ٹرک چھوڑ کر۔ اُستاد سب کو بتا دیتا ہے کہ بشیر بزدل نکلا۔ گھر بھاگ گیا اور اب اپنا کراچی والا گھر بھی چھوڑ جائے گا۔ مگر میں اُسے نہیں چھوڑوں گا۔ کہیں نہ کہیں پکڑ ہی لوں گا۔ اُستاد کا اندازہ درست نکلتا ہے اور جب وہ کراچی پہنچ کر بشیر کے گھر بندہ بھجواتا ہے، تو وہ بتاتا ہے کہ اُس کے گھر تالہ لگا ہے۔ ملیر ندی کے پاس استاد کا گھر ہے، تمام ٹرک وہیں جا کر رُکتے ہیں۔
’’اسی وقت باہر لگی ٹیوب لائٹ جل اُٹھی۔ دروازہ کھلا اور ایک چالیس پینتالیس سالہ خوب صورت عورت دروازے سے نمودار ہوئی۔ ’’بہت خوب!‘‘ اُس نے کہا۔ ’’آج تو میرے سارے لاڈلے بڑی جلدی آگئے۔ صرف بارہ بجے آگئے۔‘‘ اُستاد کریم خان نے سر کھجایا اور آگے بڑھا۔ اُس کے پیچھے سارے ڈرائیور آگے بڑھے۔ ہر طرف سناٹا تھا او راس گہری خاموشی میں اچانک نصرو کی آواز بلند ہوئی: ’’ابا! یہ ہم کہاں آ گئے ہیں؟‘‘
یہ آواز نہیں تھی ایک دھماکا تھا۔ وہ سب حیران، مبہوت کھڑے تھے جیسے اُن پر بجلی گر پڑی ہو۔ ڈرائیور ٹیڈی منھ کھولے کھڑا تھا۔ مرزا آنکھیں جھپکا رہا تھا۔ فاروق دھیرے دھیرے یوں سر ہلا رہا تھا جیسے کسی خواب سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہو۔
ناولٹ نگار اخلاق احمد سے میں صرف اس ناولٹ ’’ابا‘‘ ہی سے متعارف ہوں۔ ایک سادہ سی کہانی اپنے انجام پر کتنی پُرکار ثابت ہوگی، اس کا اندازہ کوئی بھی قاری نہیں کر سکتا۔
’’نصرو نے کمرے کے اندر قدم رکھا اور کہا : ’’بتاؤ نہ اماں، آ جاؤں اندر؟‘‘
اس ایک لمحے میں، اس فیصلہ کُن لمحے میں اُستاد کی بیوی نے سب کچھ سمجھ لیا۔ سب کچھ دیکھ لیا۔ اسی لمحے میں اُس نے اپنی گود کی ویرانی کو دیکھ لیااور گھر کی خاموشی کو سُن لیا۔ اسی لمحے میں اُس نے نصرو کی نیلی قمیص اور سیاہ نیکر والے نصرو کی آنکھوں میں چھپی پیاس کو دیکھ لیا اور اپنے دل کو عجیب طریقے سے، عجب والہانہ طریقے سے دھڑکتے محسوس کرلیا۔ مسکراہٹ اُس کے چہرے پر اور محبت اُس کے دل میں یوں پھیلی جیسے پربت کے جگر کو چیرنے والا جھرنا پھوٹتا ہے۔
’’کہاں چلا گیا تھا تو؟ ‘‘ اُس نے غصے اور محبت سے چیخ کر کہا: ’’صبح سے میں تیرا انتظار کر رہی ہوں!‘‘
’’اُلو کی پٹھی!‘‘ اُستاد کریم خان نے کہا اور اپنی مسکراہٹ چھپانے کے لیے کمرے سے نکل گیا۔‘‘
اصل میں مرکزی خیال ہی کسی تحریر کی اصل جان ہوتا ہے۔ ناولٹ نگار نے بڑا مضبوط خیال منتخب کیا اور اُسے ناولٹ کے آخر میں انسانیت کے ساتھ ساتھ ممتا سے بھی جوڑ دیا۔ اس کاینات کا مقصد اور اس پر راج کرنے والے دو بڑے جذبے دوآتشہ ہوگئے اور ایک شاہکار وجود پا گیا۔
اخلاق احمد کے اس ناولٹ کا درد ہر وہ صاحبِ دل اور درد مند انسان محسوس کر سکتا ہے جس کے دل میں انسانیت کی معمولی سی بھی رمق موجود ہے۔
یہ کہانی ایسی ہے کہ اس میں اپنی زندگی اور کسی کی زندگی سنوارنے کے لیے بہت سے سبق ہیں۔ ویسے بھی ہم ڈرائیوروں کو انسانیت سے عاری اور کرخت قسم کی مخلوق سمجھتے ہیں…… جو نشہ کرتے ہیں اور دیگر بداخلاقیوں میں گھرے رہتے ہیں…… مگر اُن سب کی ایک بچے نصرو کے لیے محبت ثابت کرتی ہے کہ وہ بھی جبر کی زندگی گزارتے ہیں اور گھر سے دور رہ کر اپنے بیوی بچوں کی یاد میں ویسے ہی تڑپتے ہیں…… جیسے اپنے گھر سے دور رہنے والے دیگر لوگ تڑپتے ہیں۔ انسانیت اور انسانیت سے متعلق اُن کے نظریات بھی کم و بیش ویسے ہی ہیں، جیسے دوسروں کے ہیں۔
اخلاق احمد کے اس ناولٹ کا اسلوب اُن کا گہرا مشاہدہ، انسان اور انسانیت کا ادراک ہے۔
یہ ناولٹ اپنے اسلوب میں انتہائی تاثر انگیز ہے اور اُس کا ہیرو ایک معصوم بچہ ہے۔ یہ حقیقت نگاری سے جڑا ہوا ایک منفرد ناولٹ ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔