ترجمہ: نائلہ حبیب
قارئین! یہ تحریر عربی سے ترجمہ شدہ ایک خط ہے، باپ کے نام…… جو سات سال پہلے دفن ہوچکا ہے۔ لکھنے والا بیٹا ہے۔ لکھ رہا ہے…… لیکن خط کے اُسلوب سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ لکھتے وقت وہ یہاں نہیں…… کسی اور ہی جہاں میں ہے۔ اپنے باپ کے ساتھ…… سہانی یادوں اور شکوے شکایتوں کا دفتر لیے۔ باپ سے ملتے ہی وہ پھٹ پڑا ہے…… اور ایک ہی سانس میں سب کچھ کَہ دینا چاہتا ہے۔ ایک رُو میں بہ رہا ہے…… اور ہر وہ جذبہ جو اَب اُس کے دل سے گزر رہا ہے…… اُس کو اپنے باپ سے کہ دینا چاہتا ہے۔ عالمِ خیال میں باپ کے ساتھ ہم کلامی کرتے کرتے وہ کیا لکھ گیا ہے؛ پڑھیے……!
’’پیارے بابا کے نام‘‘
تمام تر گرم بوسے اُس سر کے نام…… جس نے گذشتہ سات سال سے ایک قبر کو تکیہ بنارکھا ہے ……!
تمام تر محبت و احترام اُس شفاف دل کے نام…… جس کو حشرات کھاگئے ہیں!
میرے پاس تمھارے لیے الفاظ نہیں ہیں…… جن سے میں تمھاری تعزیت کرسکوں…… مگر شاید وہ تمھیں ان حالات سے آگاہ کرسکیں…… جو تمھارے بعد ہماری زندگی میں پیش آئے۔ مَیں ان الفاظ کے ذریعے درد کا بس ایک حصہ بیان کروں گا…… جس کا وجوداگر تم موجود ہوتے، تو نہ ہوتا۔
مَیں چاہتا ہوں کہ میرا ہاتھ پکڑتے سمے تمھارے ہاتھ کی حرارت محسوس کروں……!
مَیں چاہتا ہوں کہ تمھاری وہ دو خوب صورت آنکھیں دیکھوں…… جن کا اس زمین پر اب کوئی وجود نہیں ہے…… تمھارا جسم دفنادینا میرے لیے آسان نہ تھا…… تمھارا پاک جسم…… شفقت سے لبریز تمھارا خوب صورت چہرہ…… میرے دل پر اس سے سخت مرحلہ کبھی نہ آئے گا……!
تمھیں معلوم ہے…… جب مَیں تمھارے جانے سے پہلے آخری منٹوں میں تمھیں بتلا رہا تھا کہ دنیا میں کوئی دل ایسا نہیں جسے میں نے تمھارے جتنا چاہا ہو اور یہ کہ میرے لیے اس سے زیادہ کٹھن مقام کبھی نہ آئے گا…… جب مَیں تمھیں جاتا ہوا دیکھوں اور کچھ نہ کرسکوں……!
ہماری حالت سے خدا کا فیصلہ بڑا ہے۔ انجام میں کتنا ہی سوچ لوں ہر جذبے اور احساس سے زیادہ مہیب ہے…… جدائی کے وقت کی تمھاری آنکھیں، میری آنکھوں سے غائب نہیں ہوتیں……!
بابا……! یہ منظر مجھے نہیں بھولتا…… کاش……! مَیں نماز کے لیے نہ گیا ہوتا۔ کاش……! مَیں اُس وقت کھڑا ہی رہتا جب تمھاری روح سلب ہوئی…… جب وہ تمھارا بدن چھوڑ کر چل نکلی، تو کاش……! میں اس سے لپٹ جاتا۔ کاش……! زندگی وہیں تھم جاتی…… اور میں تمھارے بغیر اگلی رات نہ دیکھتا……!
مَیں 48 گھنٹے سو نہ سکا؛ اس لیے کہ تمھارا جسم (نعش) مردہ خانے میں تھا۔ مَیں وہ اذیت ناک احساس کبھی نہیں بھول سکتا…… جس نے میری آنکھیں نم کردیں؛ میرا عظیم باپ…… میری زندگی…… میری جان…… ایک بہت ٹھنڈے سرد خانے میں پڑی ہے……! مَیں چاہ رہا تھا کہ اپنے بابا کے جسم کو گرمی پہنچادوں…… جس کے لیے میں ٹھنڈے پانی اور ٹھنڈے اے سی سے بھی ڈرتا تھا۔
آہ……! وہ آج سرد خانے میں رات گزار رہا ہے…… تمھیں وہاں سے نکالنے اور دیکھ لینے سے پہلے مجھے چین نہ آیا۔ مَیں نے زندگی کو نہایا ہوا، کفن میں لپٹا ہوا دیکھا…… ٹھنڈ نے تمھارا جسم مار ڈالا تھا…… تمھارے رنگ کا نیل مجھے تمھاری موت کی یاد دلاتا رہے گا…… نیلا رنگ جس نے تمھیں پہن لیا تھا……!
بابا……! مجھے معاف کردینا……! تم نے یہ رات اس طرح کاٹی کہ مَیں نے تمھیں اچھی طرح نہیں اُوڑھایا تھا…… سخت ٹھنڈ کو تم تک پہنچنے سے نہیں روکا تھا…… مجھے معاف کردینا……!
بابا……! مجھے معاف کردینا……!
تمھیں پتا ہے……! تم نے کتنے ہی دن مجھ سے ٹھنڈ کی شکایت کی…… اور مَیں نے تمھیں سینے سے لگالیا…… تاکہ تم پُرسکون ہوجاؤ…… گرم ہوجاؤ…… مَیں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم میرا انتظار کیا کرتے تھے؛ تاکہ میں تمھیں ہڈیوں میں گھسنے والی اس ٹھنڈ سے نکال دوں……!
بابا……! مجھے معاف کردینا کہ مَیں نے تمھیں وہاں سے نہیں نکالا…… میری کوتاہی بخش دینا……!
اے پاکیزہ خوش بو……! مَیں نے تمھیں اس وقت اللہ کے حوالے کردیا تھا…… اور اللہ سے کَہ دیا تھا کہ تمھیں بتلا دے کہ معاملہ میرے ارادے سے باہر ہے……! تمھیں بتلا دے کہ تم میرے پاس سے اس کے پاس منتقل ہوگئے ہو…… اور وہ تمھارے لیے میرے سے زیادہ رحیم ہے۔
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔