ترجمہ: توقیر بُھملہ
کسی قبیلے کا سردار اپنے گھوڑے پر سوار تنہا صحرا میں جا رہا تھا۔ سفر کے دوران میں اس نے دیکھا کہ ایک شخص ریت میں دھنسا پڑا ہوا ہے۔ سردار نے گھوڑا روکا۔ نیچے اترا۔ اس شخص کے جسم پر سے ریت ہٹائی، تو دیکھا کہ وہ جو کوئی بھی تھا بے ہوش ہوچکا تھا۔ سردار نے اسے ہلایا جلایا، تو وہ نیم وا آنکھوں کے ساتھ پانی پانی پکارتے ہوئے کہنے لگا۔ پیاس سے میرا حلق اور میری زبان کسی سوکھے ہوئے چمڑے کی طرح اکڑ چکی ہے۔ اگر پانی نہ پیا، تو مر جاؤں گا!
سردار نے سوچا کہ وضع قطع سے اجنبی دکھائی دینے والا شخص، جو ارد گرد کے کسی بھی قبیلے سے تعلق نہیں رکھتا، پتا نہیں کب سے یہاں بے یارو مددگار پڑا ہوا ہے۔ اُس نے جلدی سے گھوڑے کی زین کے ساتھ لٹکی ہوئی چھاگل اُتاری اور اس اجنبی کے ہونٹوں سے لگا کر اس کی پیاس بجھانے لگا۔ اجنبی نے خوب سیر ہوکر پانی پیا۔ سردار کا شکریہ ادا کیا اور کہنے لگا، اے رحم دل شخص! میرا گھوڑا شاید کہیں بھاگ گیا ہے۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ تم مجھ پر مزید احسان کرتے ہوئے اپنے ساتھ بٹھا کر کسی قریبی جگہ لے جاؤ، جہاں میں اپنی سواری کا بندوبست کرسکوں؟
سردار نے خوش دلی سے کہا، ہاں! کیوں نہیں۔
سردار گھوڑے پر سوار ہوکر اس اجنبی سے کہنے لگا، آجاؤ! میرے پیچھے بیٹھ جاؤ۔ اجنبی بمشکل زمین سے اٹھا اور اُٹھ کر دو تین بار گھوڑے پر سوار ہونے کی کوشش کی مگر ہر بار نقاہت کے باعث گرجاتا رہا۔ وہ سردار سے کہنے لگا، اس سنگ دل صحرا نے میرے جسم کی ساری طاقت نچوڑ لی ہے۔ براہِ کرم کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ اتریں اور گھوڑے پر سوار ہونے میں میری مدد کریں۔
سردار بخوشی اُتر کر اس اجنبی کو گھوڑے پر بٹھانے میں مدد کرنے لگا۔ اجنبی جیسے ہی گھوڑے پر سوار ہوا۔ اس نے ایک زور دار لات سردار کے پیٹ میں رسید کی اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر بھگا لے گیا۔ سردار نے پیچھے سے آوازیں دیں، تو اُس اجنبی شخص نے رُک کر کہا، شاید تم خجالت محسوس کررہے ہو کہ ایک اجنبی کے ہاتھوں دھوکا کیسے کھا گیا؟ سنو! میں ایک راہ زن ہوں اور لٹیرے سے رحم کی بھیک مانگنا بے کار ہے۔ اس لیے چیخنے چلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
سردار نے جواب دیا، مَیں ایک قبیلے کا سردار ہوں اور بھیک مانگنا یا رحم کی درخواست کرنا ایک سردار کی شان کے خلاف ہوتا ہے۔ مَیں فقط یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بات میری شرمندگی کی نہیں بلکہ جب تم کسی منڈی میں اس گھوڑے کو فروخت کرنے جاؤگے، تو اس نایاب نسل کے گھوڑے کے متعلق لوگ ضرور پوچھیں گے۔ انہیں میرا بتانا کہ فُلاں قبیلے کے فُلاں سردار نے مجھے تحفتاً دیا تھا۔ کسی بھی محفل میں یہ کہانی مت سنانا، ورنہ لوگ بے رحم صحراؤں میں مدد کے طلب گار اجنبیوں پر بھروسا کرنا چھوڑ دیں گے۔