تحریر: قیصر نذیر خاورؔ
یہ آج کا شکاگو ہے۔ ہزاروں بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ سب ننگے ہی ماؤں کے بطنوں سے منھ بسورتے اور روتے ہوئے باہر آ رہے ہیں…… لیکن کچھ ہی دیر بعد اُن میں سے چند ایسے بھی ہیں جو قیمتی کپڑوں میں ملبوس کر دیے جاتے ہیں۔ ایسے کپڑوں میں جو بڑی دکانوں/ سپر سٹورز سے خریدے گئے ہوتے ہیں۔ ان چند بچوں کے برعکس بیشتر بچوں کو معمولی کپڑے ہی میسر آتے ہیں…… جب کہ شکاگو کی ’’نیبر ہُڈز‘‘ میں اکثر تو ننگے ہی پروان چڑھتے ہیں۔
شکاگو ہی نہیں دنیا کے تقریباً ہر شہر، ہر بستی میں ایسا ہو رہا ہے۔ ایسا تب بھی تھا جب 19ویں صدی میں ذرایع پیداوار کی ملکیت پر بحث نے زور پکڑا: یہ نجی ہونی چاہیے یا سماجی؟ یہ بحث اس وقت عروج پر پہنچی جب کارل مارکس اور اس کے ساتھی فریڈرک اینگلز نے 1848ء میں ’’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘‘ پیش کیا اور بعد ازاں ’’داس کیپٹل‘‘ (1867ء تا 1883ء) تین جلدوں میں سامنے آئی۔ یوں یورپ اور امریکہ میں سرمایہ داری نظام کے اُلٹ سوشلسٹ نظام کے خط وخال بھی کھل کر سامنے آنے لگے اور ’’مارکسزم‘‘ ایک سماجی، معاشی اور سیاسی مکتبہ فکر کے طور پر ابھرنے لگا۔ صنعتی انقلاب کے آنے کے بعد سے 16ویں صدی کا ’’گلڈ‘‘ سسٹم ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا اور فرانسیسی انقلاب نے اس پر کاری ضرب لگائی تھی۔ 1805ء میں گلاسکو، برطانیہ میں کپڑے کی صنعت سے وابستہ محنت کش ہڑتال پر جاچکے تھے اوریہ آگ مانچسٹر کے کپڑا بننے والوں سے ہوتی ہوئی کان کنوں تک میں پھیل چکی تھی۔ 1864ء میں محنت کشوں کی عالمی ایسوسی ایشن وجود میں آ چکی تھی۔ 1871ء میں پیرس کمیون کھڑی ہوئی۔ 1891ء میں "Rerum Novarum” کے تحت کام کے اوقات، مناسب معاوضے، بچوں سے مشقت نہ لینے، یونین سازی کے حق کی بات کی گئی۔ یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ ریاست محنت کشوں کے معاملات بارے قانون سازی کرے۔ اُدھر امریکہ میں بھی حالات کچھ مختلف نہ تھے اور محنت کش اپنے بنیادی حقوق کے لیے وقتاً فوقتاً ہڑتالوں پر جا رہے تھے۔ 1884ء میں محنت کشوں کی عالمی ایوسی ایشن جو تب سیکنڈ انٹرنیشنل کہلانے لگی تھی، نے ایک عالمی مظاہرے کا اعلان کیا…… تاکہ کام کے اوقات ’’آٹھ گھنٹے‘‘ روزانہ تک محدود کرائے جاسکیں۔ امریکہ میں اس کا فیصلہ امریکی فیڈریشن آف لیبر نے کرنا تھا۔ یہ مظاہرہ یکم مئی 1886ء کی ہڑتال سے شروع ہوا اور چار مئی 1886ء کو اس کے نتیجے میں شکاگو میں ’’ہے مارکیٹ‘‘ کا سانحہ (Haymarket square massacre) پیش آیا۔ اس سانحے کی یاد دُنیا بھر میں ’’یومِ مئی‘‘ کے طور پر منائی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ تب محنت کشوں کے اوقات کار 60 گھنٹے فی ہفتہ سے بھی زیادہ ہوا کرتے تھے اور معاوضہ ڈیڑھ ڈالر بھی نہ ہوتا تھا۔
ادب خصوصاً ناول کے اعتبار سے دیکھا جائے، تو 19ویں صدی جین آسٹن، چارلس ڈکنز، برونٹے سسٹرز، ٹالسٹائی، دوستوفسکی، آسکر وایلڈ اور مارک ٹوین جیسے اہم ادیبوں سے بھری نظر آئے گی…… لیکن میکسم گورکی، جیک لنڈن جیسے سوشلسٹ خیالات رکھنے والے ادیب کم کم ہی نظر آئیں گے۔ ایسے میں ہی امریکہ میں ایک ایسا بچہ بھی پیدا ہوا جو بڑا ہو کر نہ صرف ادیب بنا…… بلکہ بائیں بازو کے خیالات رکھنے والا صحافی اور سیاسی طور پر سرگرم کارکن بھی بن کر سامنے آیا۔ یہ بچہ اپٹون سِنکلیئر (Upton Beall Sinclair Jr) تھا۔ ستمبر 1878ء میں بالتی مُور ، میری لینڈ میں پیدا ہونے والے اس بچے نے بڑے ہو کر نہ صرف لگ بھگ مختلف نوعیت کی لگ بھگ سو کتابیں اور سیکڑوں کتابچے لکھے بلکہ 1934ء کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے کیلی فورنیا کا گورنر بھی نام زد ہوا…… لیکن کنزرویٹو ری – پبلکن فرینک میریم سے اس لیے ہار گیا کہ کیلی فورنیا کی پروگریسو پارٹی کے امیدوار نے اس کے لگ بھگ تین لاکھ ووٹ توڑ لیے تھے۔ 1940ء میں اس نے ’ ’لینی بڈ‘‘ (Lanny Budd) کے مرکزی کردار پر 11 ناولوں کی ایک سیریز لکھنی شروع کی جو 1953ء میں مکمل ہوئی ۔ ’ ’لینی بڈ‘‘ سٹیریو ٹایپ بد ہیئت امریکہ کا ایک انٹی تھیسس کردار ہے۔ اپٹون کے یہ سارے ناول بیسٹ سیلر رہے اور اس سیریز کے تیسرے ناول ’’عفریت کے دانت‘ ‘ (Dragon’s Teeth) شایع شدہ 1942ء نے اسے 1943ء کا ’’پُلزر‘‘ انعام بھی دلایا۔ یہ ناول اُس 1930ء کی دہائی کے بارے میں تھا جس میں ہٹلر نے جرمنی پر اپنا اثر قایم کیا تھا ۔ اس میں ’ ’لینی بڈ‘‘ فاشزم مخالف ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا تھا ۔
اپٹون سِنکلیئر نے کولمبیا یونیورسٹی سے ’’قانون‘‘ پڑھا چاہا…… لیکن وہ ہسپانوی، جرمن اور فرانسیسی زبانوں کی شد بد حاصل کرنے اور ’’پلپ‘‘ (Pulp)فکشن لکھنے میں لگ گیا۔ اسی دوران میں جب صدی بدل رہی تھی، اس نے چار ناول ’’کنگ مڈاس‘‘ ، ’’شہزادہ ہیگن‘‘، ’’آرتھر سٹرلنگ کا جرنل‘‘ اور 1904ء میں ’’ماناسس‘‘ جو امریکی خانہ جنگی پر تھا، لکھے۔ یہ ناول ادبی نقادوں کو تو پسند آئے لیکن بِک نہ سکے۔ وہ تب تک خدا کے وجود بارے تشکیک کا شکار ہوچکا تھا۔ اس کے والدین غریب تھے…… لیکن دادا، دادی مال دار، یہیں سے اُسے غربت اور امارت کا فرق معلوم ہوگیا تھا۔ اس نے کئی مہینے گم نام حیثیت میں مویشیوں کے باڑوں، مذبح خانوں اور ان صنعتی یونٹوں میں گزارے جو باڑوں میں پلے اور مذبح خانوں میں کٹے گوشت کی پیکنگ کا کام کرتے تھے۔ اس نے 1905ء میں انٹرکالجیٹ سوشلسٹ سوسایٹی بھی قایم کی۔ اس کا ناول ’’دی جنگل‘ ‘ 1906ء میں شایع ہوا۔ یہ اس سے پہلے 1905ء میں سوشلسٹ ہفت روزہ ’’اَپیل ٹو ریزن‘‘ (Appeal to Reason) میں قسط وار شایع ہوتا رہا تھا۔
یہ ناول شکاگو میں گوشت سے وابستہ صنعت میں کام کرنے والے اُن تارکینِ وطن کے بارے میں ہے جو اپنا دیس چھوڑ کر امریکہ، بہتر مستقبل کے لیے، آئے تھے۔ یہ تارکینِ وطن زیادہ تر بحیرۂ بالٹک کے علاقے لیتھوانیا سے تعلق رکھتے تھے، لیتھوانیا جو اس وقت روسی سلطنت کا حصہ تھا ۔
اس ناول کا مرکزی پلاٹ ’’یورگِس رودکس‘‘، اس کی بیوی ’’اونا‘‘ اور اس کے بڑے خاندان کے گرد گھومتا ہے جس میں اونا کی سوتیلی ماں الزبیٹا، اس کے چھے بچے اور یورگِس کا باپ شامل ہیں ۔ یہ سب شکاگو کے ایک چھوٹے قصبے ’’پیکنگ ٹاؤن‘‘ میں رہتے ہیں۔ پیکنگ ٹاؤن جسے اپٹون نے جنگل کا نام دیا ہے۔ یورگِس اپنے خاندان کے ہمراہ شکاگو اس لیے آیا ہے کہ اسے اُمید ہے کہ یہ شہر اس کے لیے روزگار اور بقا کے اچھے مواقع مہیا کرے گا۔ پر ایسا نہیں ہوتا۔ سردیوں کی آمد پر ان کے کام کرنے کی جگہیں انتہائی یخ، خطرناک ہوجاتی ہیں اور اُن کے حالات مخدوش ہوجاتے ہیں۔ یورگِس کا باپ پھیپھڑوں کی بیماری کے ہاتھوں مر جاتا ہے۔ یورگس لیبر یونین کی رکنیت حاصل کرتا ہے اور یوں اسے اپنی فیکٹری کے نظم و نسق میں بدعنوانوں کا پتا چلتا ہے۔ ترقی مل جائے گی، یہ سوچ کر یورگس انگریزی سیکھنے لگتا ہے۔ اونا ایک بچے کو جنم دیتی ہے…… لیکن ہفتہ بعد ہی اسے مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ کام پر لوٹے۔ کام کے دوران میں ایک حادثے میں یورگس کے ٹخنے میں موچ آ جاتی ہے اور اسے، بغیر تنخواہ کے، تین ماہ بستر پر گزارنے پڑتے ہیں جس کے بعد اسے کہیں کام نہیں ملتا۔ اسے بالآخر ایک کھاد فیکٹری میں نوکری مل جاتی ہے جہاں کام کرنے والے محنت کش کیمیاوی مادوں کی آلودگی کی وجہ سے زیادہ دیر زندہ نہیں رہ پاتے۔ اونا ایک بار پھر حاملہ ہوجاتی ہے۔ ایک رات جب یورگس کام سے لوٹتا ہے، تو اسے پتا چلتا ہے کہ اونا کی عزت اپنے افسر فِل کارنر کے ہاتھوں لُٹ چکی ہے۔ یورگس اسے تلاش کرکے اس کو مارتا ہے جس پر اسے قید میں ڈال دیا جاتا ہے۔ کہانی اور آگے بڑھتی ہے یہاں تک کہ یورگس کا ایک بار پھر فِل کارنر سے سامنا ہوتا ہے اور بدلے کی آگ میں جلتا یورگِس ایک بار پھر اس پر حملہ آور ہوتا ہے اور جیل کی ہوا کھاتا ہے ۔ باہر آ کر اسے معلوم ہوتا ہے کہ اونا کی عم زاد ماریا طوایف بن چکی ہے اور منشیات (مارفین) کی عادی ہے۔ یورگِس بے روزگار ہے اور روزگار کی تلاش اسے سوشلسٹوں کے مظاہرے میں لے جاتی ہے۔ یہیں سے یورگِس کے خیالات بدلتے ہیں اور ناول ایسے نعروں ’’منظم ہو جاؤ، منظم ہو جاؤ، منظم ہو جاؤ، شکاگو ہمارا ہے!‘‘ پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
یہ ناول جب لکھا گیا، اس وقت امریکہ میں صنعتی دور ابھی اپنے ابتدائی دور میں تھا۔ اپنے وطن چھوڑ کر آئے مہاجروں کے لیے فیکٹریوں کے علاوہ روزگار کے اور کوئی مواقع نہ تھے۔ فیکٹریوں میں سرمایہ داروں کا رویہ انتہائی غیر انسانی تھا اور شکاگو و دیگر صنعتی شہروں کے محنت کشوں کے حالات مخدوش تھے۔ وہ الم ناک زندگی گزار رہے تھے۔ جیک لنڈن کی طرح اپٹون بھی سرمایہ داری نظام کا مخالف تھا اور استحصال، ظلم، ناانصافی اور غربت کے خاتمے کا خواہش مند تھا۔ اس ناول میں اپٹون نے مزدوروں کی اس روایت کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی…… جس کی داغ بیل یکم مئی 1886ء کو ڈالی گئی تھی۔ اپٹون البتہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا۔ کیوں……؟ اس کا احاطہ مترجم عمران الحق چوہان نے اپنے پیش لفظ کے آخر میں بخوبی بیان کیا ہے۔
اس ناول کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی ادیب جیک لنڈن نے اس پر اپنے تبصرے میں اسے ’’ہیریٹ بیچر سٹوو‘ ‘ کے 1852ء کے ناول ’’انکل ٹامز کیبن‘ ‘ سے ملاتے ہوئے اسے ’انکل ٹامز کیبن آف ویج سلیوری‘‘ (The Uncle Tom’s Cabin of wage slavery) کا نام دیا۔ برطانوی سیاست دان ونسٹن چرچل نے اسے سراہا۔ ہٹلر اس ناول سے اتنا خوف زدہ ہوا کہ اس نے جو کتابیں جلوائیں ان میں یہ سرِفہرست تھا۔ امریکی صدر روزویلٹ نے پہلے تو اپٹون کو اس کے سوشلسٹ خیالات کی وجہ سے ’’کریک پوٹ‘‘ (crackpot) کہا، لیکن بعد ازاں اسے عوامی دباؤ کے تحت ’’گوشت کی پڑتال کا ایکٹ‘‘ اور ’’خالص خوراک و ادویہ کا ایکٹ‘‘ پاس کرنا پڑا، تاکہ اشرافیہ کو خالص خوراک و ادویہ مل سکیں۔ محنت کشوں کے حالات پھر بھی نہ بدلے، یہ تو کہیں بہت بعد میں جا کر تبدیل ہوئے…… لیکن معاشی ناہم واری اب تک قایم ہے ۔
اپٹون نے اس ناول سے ہونے والی آمدن سے ’ ’ایگل ووڈ‘‘ نیو جرسی میں ایک کمیون بنانے کا تجربہ بھی کیا، جہاں ادیب اور فن کار مل جل کر رہتے تھے۔ اس نے اسے ’’یوٹوپیا‘‘ کا نام دیا…… لیکن یہ کمیون سال بھر بھی نہ چل سکی۔ کیوں کہ اس کے مخالفوں نے اسے جلوا دیا تھا ۔
31 ابواب پر مشتمل یہ ناول صدی سے زاید پرانی انگریزی میں لکھا گیا ہے جسے لیتھوانیا سے تعلق رکھنے والے کرداروں کے ناموں نے اور بھی مشکل کر دیا ہے۔ مترجم عمران الحق چوہان اس سے پہلے بھی تین کتب ’’روٹس‘‘، ’’میلکم ایکس کی خود نوشت ‘‘ اور ’’قہر کے انگور ‘‘ کے ترجمے ’ ’اساس‘‘ ، ’’گہر ہونے تک‘‘ اور ’’کِشت ِ ستم‘‘ کے نام سے کرچکے ہیں۔ انہوں نے "The Jungle” کا ترجمہ خاصی محنت سے کیا ہے۔ البتہ بہتر ہوتا کہ وہ اشاعت سے پہلے اس ترجمے کی’’سیکنڈ ریڈنگ‘‘ اور’’پروف ریڈنگ‘‘ کسی ماہر لسانیات اور اُردو دان سے کروا لیتے۔ کیوں کہ املائی اغلاط اور ٹایپنگ کی غلطیاں ترجمے کی روانی کو متاثر کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک غلطی بیک ٹایٹل پر "Malcolm” کی ہے، جسے "Malcom” لکھا گیا ہے ۔
اپٹون سِنکلیئر کے ’’دی جنگل‘‘ کے اس ترجمے کو بک ہوم، 46 بُک سٹریٹ ، مزنگ روڈ، لاہور نے شایع کیا ہے اور اِس کے مجلد ایڈیشن کی قیمت پندرہ سو روپے ہے۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔