ترجمہ: بُش احمد (اسٹریلیا)
’’وَنگری ماتھائی‘‘(Wangari Maathai) 1940ء میں مشرقی افریقہ کے ملک کینیا کی 1,750 میٹر اُونچی سطحِ مرتفع کے نائیری علاقے کے ’’کِکویُو‘‘ قبیلے میں پیدا ہوئیں۔ اُنہوں نے ہائی اسکول کے بعد جوزف پی کینیڈی جونیئر فاؤنڈیشن کے سکالر شپ پر امریکہ میں تعلیم حاصل کی۔ بائیولوجیکل سائنسز میں بی ایس سی اور پھر ایم ایس سی کرنے کے بعد افریقہ واپس آکر یونیورسٹی کالج نیروبی میں بطورِ ریسرچ اسسٹنٹ 1966ء میں کام کرنا شروع کیا۔ مشرقی اور وسطی افریقہ میں وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے 1971ء میں ویٹرنری اناٹومی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری (PhD) حاصل کرنے کا اعزاز پایا۔ چار پانچ سال کے بعد وہ عملی سیاست کے میدان میں اُتریں اور گرین بیلٹ موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ یہ تحریک کینیا میں ماحولیاتی اصلاح، لاکھوں درخت اُگانے اور حقوقِ نسواں کے رفاہی کاموں کے لیے بہت مشہور ہے۔ کینیا کے آمرِ مطلق ’’دانیال آراپ موئی‘‘ کے دور میں معاشرے میں انصاف کا تقاضا، جمہوریت کے استحکام اور ماحولیاتی اصلاحات کی کوششیں بالآخر رنگ لائیں…… جب 2004ء میں ’’وَنگری ماتھائی‘‘ کو نوبل انعام برائے امن کا اعزاز ملا۔ وہ ایک اعلا درجے کی ترقی پسند سیاست دان، حوصلہ مند کارکن، فلاسفر، دانش مند، عالم اور کئی کتابوں کی مصنف تھیں…… جنہوں نے دُنیا کے ماحولیاتی اصلاحات، ترقی، جینڈر، افریقن معاشرہ اور مذاہب کے عِلموں میں اضافہ کیا۔ کینسر کے علاج کے دوران میں پیچیدگی کا شکار ہو کر ’’وَنگری مُتا ماتھائی‘‘ 25 ستمبر 2011ء کے دِن وفات پاگئیں۔ مندرجہ ذیل دلچسپ تحریر اُن کی مشہور کتاب ’’ناقابلِ شکست‘‘ (Unbowed) کے ایک حصے کا ترجمہ ہے۔
میری عمر 7، 8 سال کی تھی جب ہم نائیری کے قصبے میں واپس آئے۔ چند دِنوں کے بعد میرے بھائی دیَریتُو نے ماں سے پُوچھا: ’’کیا وجہ ہے کہ وَنگری ہماری طرح اسکول نہیں جاتی؟‘‘
دیَریتُو اس وقت 13 سال کا تھا اور ہائی اسکول جانا شروع کیا تھا۔ اس کا سوال زیادہ عجیب و غریب نہیں تھا۔ اس سے پہلے ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو تعلیم دلانے کا واقعہ ہوچکا تھا۔ میرا ماموں ’’کامُوں یا‘‘ اپنے سب بچوں کو اسکول بھیج رہا تھا جن میں ایک بیٹی بھی شامل تھی…… لیکن یہ عام رواج نہیں تھا۔ میری ماں نے ایک لمحے کے لیے سوچا۔ پھر جواب دیا: ’’کوئی وجہ نہیں کہ وہ اسکول نہ جائے۔‘‘
اگرچہ مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہوا…… لیکن مجھے شک ہے کہ میری ماں نے ماموں سے مشورہ کیا ہوگا۔ ہمارے باپ کی غیر حاضری کے دوران میں ماموں ہی خاندان کے سرپرست کے طور پر موجود تھے۔ اُنہوں نے ضرور ہامی بھری ہوگی۔ کیوں کہ فیصلہ کیا گیا کہ میَں اپنے کزنز کے ساتھ پرایمری اسکول جاؤں گی۔ میری ماں کے لیے یہ ایک بھاری فیصلہ تھا۔ میری چھوٹی بہن ’’مونیکا‘‘ پیدا ہو چکی تھی اور ہماری ماں نے مجھ سے چھوٹے 3 بچوں کی نگہداشت کرنی تھی۔ اسکول کی فیس کا بھی کچھ کرنا تھا۔ اس وقت کے اسکول کی ایک ٹَرم کی فیس صرف ڈیڑھ روپیا تھی جو ہماری دیہاتی فیملی کے لیے بہت مہنگی تھی۔
میری ماں آسانی سے کہہ سکتی تھی: ’’ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ گھر میں مجھے وَنگری کی مدد کی ضرورت ہوگی۔ لڑکی کو تعلیم دلانے کا کیا فایدہ؟‘‘ لیکن اگرچہ وہ خود کبھی اسکول نہیں گئی تھی، میری ماں نے میرے بھائی کی رائے کے ساتھ اتفاق کیا۔ میَں بہت شکرگزار ہوں کہ میری ماں نے یہ فیصلہ کیا۔ کیوں کہ یہ فیصلہ میَں خود سے نہ کر پاتی…… اور اس نے میری زندگی بدل دی۔ میَں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر ’’دیَریتُو‘‘ نے یہ سوال نہ پوچھا ہوتا اور میری ماں نے وہ جواب نہ دیا ہوتا، تو کیا ہوتا؟ آج تک مجھے نہیں معلوم کہ میری تعلیم کے پیسے کہاں سے آئے…… لیکن غالباً میری ماں نے گاؤں میں دوسرے لوگوں کی زمینوں پر کھیتی باڑی کی مزدوری میں وہ پیسے کمائے ہوں گے۔ ان دِنوں ایک دِن کی دیہاڑی سے 60 پیسے کمائے جا سکتے تھے۔
پرایمری اسکول میں میرا پہلا دِن مجھے آج تک یاد ہے…… بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اسکول پہنچنے سے پہلے جو کُچھ ہوا وہ میری یادداشت میں کھبا ہوا ہے۔ میرے پاس ایک سلیٹ تھی۔ چند اورق پرمشتمل ایک کاپی اور ایک پنسل تھی اور کسی جانور کی کھال سے بنا ایک سادہ سا تھیلا۔ بعد میں میرے ماموں نے مجھے سوتی کپڑے سے بنا ایک تھیلا عطا کر دیا تھا۔ پہلے ہی دِن 8 سال کی بچی کے لیے 3 میل اکیلی چل کر اسکول جانا مشکل یا غیر معمولی نہیں سمجھا جاتا تھا…… لیکن میرا کزن ’’جونوتَھن‘‘ جس کو سب جونو کہتے تھے، وہ صبح سویرے مجھے لینے آگیا۔عمر میں وہ مجھ سے تھوڑا ہی بڑا تھا اور لکھنا پڑھنا جانتا تھا۔ ننگے پاؤں ہم دونوں پہاڑی پر چڑھتے کچے راستے پر چل رہے تھے…… جو اسکول کے احاطے کی طرف جاتا تھا کہ میرا کزن اچانک رُک کر راستے کے ایک طرف بیٹھ گیا۔ مجھے اشارے سے بلا کر ساتھ بٹھایا اور بولا: ’’کیا تم لکھنا پڑھنا جانتی ہو؟‘‘
’’نہیں! میَں نہیں جانتی‘‘ میَں نے سر ہلاتے جواب دیا۔
’’لیکن کیا تم کم از کم لکھ تو سکتی ہو نا؟‘‘ اُس نے تنگ آ کر چھوٹی کزن کو متاثر کرنے کی اپنی بہترین کوشش کی۔ میَں نے اسے بتا دیا کہ میں لکھ بھی نہیں سکتی تھی۔ مجھے تو واقعی یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ لکھائی کیا بلا ہوتی ہے…… لیکن میَں سارا راز فاش نہیں کرنا چاہتی تھی۔
’’اچھا!‘‘ جونو پُراسرار لہجے میں بولا، ’’میَں تمہیں کُچھ دکھانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ مجھے اب تجسس ہوا۔
’’میَں تمہیں دکھاتا ہوں کہ لکھتے کیسے ہیں!‘‘ جونو نے اپنی کاپی نکالی اور اس پر ’’کریون‘‘ نما پنسل سے کچھ لکھا۔ لکھنے سے پہلے اس نے پنسل کو اپنی زبان سے اچھی طرح تَر کیا، تاکہ لکھا جا سکے۔ اور یقین کیجیے کہ اس نے اس پنسل کو چاٹنے کا ایسا مظاہرہ کیا جیسے جادوگر شعبدہ دکھاتے کرتے ہیں۔ پھر اس نے جو لکھا تھا، وہ میرے سامنے پیش کیا۔ ظاہر ہے جو کچھ لکھا گیا تھا، مجھے تو بالکل سمجھ نہیں آیا…… لیکن میَں اس کی مہارت سے بہت متاثر ہوئی۔ ’’واہ! تُم تو واقعی لِکھ سکتے ہو!‘‘میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
میرے کزن نے اثبات میں اپنا سر ہلایا۔ پھر اُس نے ایسی حرکت کی جو میرے خیال میں سچا مچا معجزہ تھا۔ اس نے اپنے بیگ سے ایک ربر نکالا اور جو کچھ لکھا تھا، وہ ربر سے رگڑ کر مٹا دیا۔ لکھائی بالکل غائب ہوگئی۔ مَیں نے پہلے کبھی ربر نہیں دیکھا تھا…… اور یہ تو بالکل جادو تھا۔
’’کیا تُم یہ کر سکتی ہو؟‘‘ اُس نے کچھ زیادہ ہی شیخی مارتے پُوچھا۔
’’نہیں!‘‘ مَیں نے حسرت سے جواب دیا یہ سوچتے ہوئے کہ میرا کزن تو واقعی کوئی جینیس قسم کا انسان تھا۔
’’اسکول جا کر تُم یہ سیکھوگی!‘‘ اُس نے فتوا دینے کے انداز میں ارشاد کیا۔
اس واقعے کے بعد ہم نے اسکول کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔ وہ دِن مَیں نے کبھی نہیں بُھولا۔ پڑھنے لکھنے پر مجھے آمادہ کرنے کا یہ بہترین طریقہ تھا۔ ہائے میری کتنی خواہش تھی کہ مَیں لکھ سکوں اور پھر اسے مٹا بھی سکوں۔ جب بالآخر مَیں نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا۔ مَیں کبھی رُکی نہیں۔ کیوں کہ میَں پڑھ سکتی تھی، لکھ سکتی تھی اور اسے مٹا سکتی تھی۔
ہمارا اسکول اس زمانے کے اسکولوں جیسا تھا۔ اس کی دیواریں گارے کی اور فرش مٹی کا تھا۔ ہر جمعے والے دِن ہم اپنے اپنے گھروں کے چولہے سے راکھ لے کر آتے تھے اور فرش پر بچھاتے تھے۔ پھر قریبی ندی سے جا کر پانی بھر کر لاتے تھے اور راکھ پر پانی چھڑک کر فرش کو رگڑ رگڑ کر جھاڑو سے صاف کرتے تھے۔ اس زمانے میں فرش صاف کرنے کا یہ ایک عام طریقہ تھا جس سے کمرے میں گرد بھی جمع نہیں ہوتی تھی اور پسو جیسے حشرات الارض بھی تنگ نہیں کرتے تھے۔ جون سے اگست کے مہینوں میں اس اُونچے علاقے میں سردی اور دُھند ہوتی تھی اور ہمارا اسکول انتہائی ٹھنڈا ہو جاتا تھا۔ ان دنوں ہمارے اساتذہ آگ جلا دیتے تھے…… تاکہ ہم اپنے ہاتھوں کو گرم کر کے لکھ سکیں۔ آج کل یہی سطح مرتفع اب اتنی سرد نہیں ہوتی۔ شاید یہ ’’گلوبل وارمنگ‘‘ اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ ہوگی۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
ونگری ماتھائی، ایک ناقابلِ شکست عورت کی کہانی
