شربت گلہ کی عمر اتنی زیادہ نہ تھی، لیکن بے بسی، مفلسی اور سخت مشقت نے وقت سے پہلے اسے بڑھاپے کی دہلیز پر لا کھڑا کیا تھا۔ زرولی کے ساتھ اس کی شادی کے ابھی دو سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ ایک خود کُش حملہ میں اُس کی دھجیاں اُڑ گئیں اور گاؤں کے لوگوں نے زرولی کی جگہ چند ہڈیاں اور چیتھڑے سپرد خاک کئے۔ یوں شربت گلہ بھری دنیا میں اکیلے رہ گئی۔ گاؤں کے خوانین کے گھروں کا کام کاج تھا اور وہ تھی۔ ابھی صبح ناشتے والے برتنوں کا مانجھنا باقی ہوتاکہ ظہرانے کا وقت سر پر لٹکتی تلوار کی طرح آکھڑا ہوتا، کپڑے دھونا اور بچوں کی دیکھ بھال اس پر مستزاد۔ شام کے سائے گہرے ہوتے، تو تین سوکھی روٹیوں اور استعمال شدہ بچے کچھے سالن کے ساتھ وہ تھکاوٹ سے چور گھر لوٹ آتی، جہاں ایک چار سالہ ننھی بچی کو راہ تکتے پاتی۔ خاپیریٔ (شہزادی) خدا جانے ماں کو دیکھ کر پھولے نہ سماتی یا اس کے ہاتھ میں مذکورہ خوراک کو…… دفعتاً اٹھ جاتی اور دوسرے ہی لمحے خوب سیر ہو کر کھالیتی۔
آج خان کا اہلِ خانہ شادی کے سلسلہ میں شہر گیا تھا، جس کی وجہ سے شربت گلہ کی چھٹی تھی۔ وہ بھلی مانس سوچتی کہ خان کے ہاں چھٹی ہے، مگر ہمارے پیٹ کی تو چھٹی نہیں ہے۔پھر اگلے ہی لمحے وہ توبہ کرلیتی، کیوں کہ اسے مولوی غازی گل کی باتیں یاد آتیں…… ’’شربت گلے! نیک بخت، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہے۔ صبر و برداشت کا دامن تھامے رکھو۔ صحت مند ہو، اس سے بڑی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟‘‘ شربت گلہ ابھی ان سوچوں میں تھی کہ زمین جھولنے لگی اور جب ایک چیخ کے ساتھ وہ خاپیریٔ کو لینے کمرہ کے اندر گئی، تو گھر کی کچی دیواریں زلزلہ کو برداشت نہ کرسکیں۔ اُسے جتنے کلمے یاد تھے، سب کا ورد کیا، لیکن جیسے ہی اس کا منھ گرد اور مٹی سے بھر گیا، تو اس کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔
سہ پہر کو ماں بیٹی کی گرد آلود لاشیں چندہ کرکے خریدے گئے کفن میں سپردِ خاک کی گئیں۔ اس وقت مولوی غازی گل نے ہونے والے زلزلہ کو آفتِ سماوی گردانا اور کہا کہ انسانوں کے گناہوں کی وجہ سے اس طرح کے عذاب نازل ہوا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی حاضرین اجتماعی طور پر توبہ تائب ہوئے۔ خدا جانے شربت گلہ اور خاپیریٔ اپنے حصے کے عذاب سے گلوخاصی پاگئیں یا ابھی ان کے گناہوں کا عذاب باقی تھا؟ ماں اور بیٹی خالی پیٹ خدا کے دربار میں حاضر تھے۔
نوٹ:۔ پختو افسانوں کے مجموعہ ’’چیندرو‘‘ (از ڈاکٹر ہمدرد یوسف زے) سے ’’زلزلہ‘‘ کا ترجمہ (راقم)۔