
نصرت نسیم
عالمی شہرت یافتہ مصور اور خطاط محترم لیاقت علی خان سے ملاقات ہوئی، تو ان کی ذرہ نوازی کہ ان کے سنہرے ہاتھ سے کتاب ’’سنہرے ہاتھ‘‘ کا بیش قیمت تحفہ وصول کیا۔ اس مادہ پرست اور بے بضاعت دور میں ’’سنہرے ہاتھ‘‘ محبت اور خلوص کی ایک ایسی مہک لیے ہوئے ہے…… جو نہ صرف سنہرے ہاتھ بلکہ سنہرے دلوں پر دلالت کرتی ہے۔ شجاعت علی راہیؔ صاحب کے اپنے شعر کا ایک مصرع ہے:
میں ہوں کوہاٹ، میرے شمس وقمر تو دیکھو
تو مَیں ایک فرزندِ کوہاٹ اور بہت بڑے انسان سے مل کر آئی۔ کتاب جوسامنے ہے،وہ گوناگوں خوبیوں سے متصف علمی ادبی شخصیت محترم شجاعت علیؔ راہی صاحب کی تصنیف ہے۔ گویا یہ کہانی شمس و قمر کی ہے۔ 149 صفحات پر مشتمل یہ کتاب مَیں نے جلد ہی پڑھ ڈالی اور اس پر تبصرہ لکھنے کا ارادہ کیا، تو دانتوں پسینا آگیا۔ اس مختصر سی کتاب کا طرزِ نگارش، تشبیہات، محاکات، مترنم الفاظ، مصوری کی تاریخ اوراسرار ورموز اور محبت وخلوص کے شفاف پاکیزہ جھرنے، مَیں کس کس کو بیان کروں! مَیں کوئی باقاعدہ نقاد یا تبصرہ نگار نہیں…… مگر خلوص سے دی گئی اس کتاب کی ایک ایک سطر کو بغور اور محبت سے پڑھا ہے، اور اس پر لکھنا اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہوں کہ یہ کتاب بیک وقت میرے شہر کوہاٹ کے دوبڑے عظیم انسانوں کے فن کی گواہ ہے۔
مصنف شجاعت علی راہیؔ صاحب علمی و ادبی دنیا کا ایک اہم نام اوربے شمار کتابوں کے خالق ہیں۔ شاعر، ماہرِ تعلیم اور ادبِ اطفال پر ان کے گراں قدر کام کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک بلند پایہ ادیب اور شاعر بچوں کے لیے کیسے آسان زبان وبیاں میں نصیحت آموز کتابیں تخلیق کر رہے ہیں۔ ادبِ اطفال پر ان کا کام بلا شبہ قابلِ تحسین وقابل ستائش ہے۔ اپنی سوانح حیات ’’بلیک باکس‘‘ کے نام سے تحریر کر چکے ہیں جو ان کی جہد مسلسل، علم و ادب سے محبت، با اصول اور کھرے انسان ہونے کی عکاس ہے ۔
زیرِ تبصرہ کتاب ’’سنہرے ہاتھ‘‘ دل نشیں و دل ربا نثر، دل آویز اسلوب اور پیار کے خالص جذبے سے گندھی تحریر کی وجہ سے ’’اباسین ادبی ایوارڈ‘‘ پاچکی ہے۔ اس سے پیشتر مایہ ناز مصورکی زندگی پر’’بچپن سے پچپن تک‘‘ ایک کتاب قیوم مروت تحریر کر چکے ہیں، لہٰذا ’’سنہرے ہاتھ‘‘ میں مصنف نے ان کے فنِ مصوری، خطاطی اور دیارِ غیر میں ان کی پذیرائی کوبیان کیا ہے۔ مصور لیاقت علی خان نے ابتدائی تعلیم کوہاٹ سے اور پشاور یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف فائن آرٹس سے کمرشل آرٹس میں ڈپلوما حاصل کیا۔ آغاز میں انہوں نے فلموں کے اشتہار اور اداکاروں کے قدِ آدم پورٹریٹ بنائے اور شبانہ روز دیوانہ وار کام کیا۔ جس نے آگے جاکر انہیں ایک منفرد مصور کی حیثیت سے شہرت بخشی۔
30 برس بلدیہ ابوظہبی کے ساتھ وابستہ رہے۔ جہاں ان کے فن کو جلا اور کام کرنے کے سنہری مواقع ہاتھ آئے۔ انہوں نے صدر شیخ زاید بن سلطان النہیان کی 512 سکوئر میٹر تصویر بنا کر عالمی شہرت پائی۔ شیخ زاید بن سلطان النہیان نے انہیں اپنے محل میں ملاقات کے لیے 20 منٹ کاوقت دیا، مگر وہ اس مردِ درویش کے استغنا اور باتوں سے اتنے متاثر اور خوش ہوئے کہ ملاقات دوگھنٹے جاری رہی۔ ان کے اس سوال کے جواب میں کہ انہوں نے یہاں آکر کیا سیکھا؟ لیاقت علی خان نے جواب دیا کہ محنت اور رزقِ حلال کمانے کا درس سیکھا ہے۔ شیخ زاید بن سلطان النہیان کو ان کاکچھ نہ مانگنا اور خودداری پسند آئی اور انہوں نے اپنے بیٹے منصور سے کہا کہ اس شخص پر کبھی اپنے گھر کے دروازے بند مت کرنا۔

کتاب ’’سنہرے ہاتھ‘‘ کا خوب صورت ٹائٹل۔ (فوٹو: فضل ربی راہیؔ)
1999ء میں دنیا کی سب سے بڑی پورٹریٹ بنائی۔ شیخ زاید بن سلطان النہیان کی یہ پورٹریٹ جو انہیں بہت پسند تھی، مصور لیاقت علی خان کے فن پر مقامی اخبارات کے علاوہ سعودی اخبار اورسی این این نے بھی انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ اور انہیں’’سنہرے ہاتھ‘‘ سے موسوم کیا۔ ’’سنہرے ہاتھ والے مصور‘‘ یہ نام ان کے نام کا حصہ بن گیا۔
لیاقت علی خان کو برق رفتاری سے کام کرتے دیکھ کر ایک جرمن آرٹسٹ حیران رہ گیااوربولا کہ مَیں نے اتنی برق رفتاری سے کام کرنے والا آرٹسٹ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ مصور اعظم نے مسکرا کر جواب دیا۔ آپ نے میری پختہ سالی کے دور کا کام دیکھا ہے ۔ عہدِ جوانی کا کام نہیں دیکھا۔
محترم شجاعت علی راہیؔ صاحب نے بہت محبت سے لیاقت علی خان کے سنہرے ہاتھ کے شاہکاروں کاتذکرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’میورل بنانے کا جوملکہ صادقین کو حاصل تھا،وہ لیاقت علی خان کو بھی حاصل ہے۔ ایسے فنکار سے ایسا کام لینا چاہیے جیسا مائیکل اینجلو اور صادقین سے لیا گیا۔‘‘
یہ الفاظ مصنف نے یوں ہی نہیں لکھ دیے۔ وہ مصوری اور اس کے رموز و نِکات کو سمجھتے ہیں۔ 1973ء میں جب ٹی وی کے پروڈیوسر بنے، تو صادقین سے ملاقات رہی اور ان کو قریب سے دیکھنے کاموقع ملا۔ بقولِ مصنف انہیں صادقین کی ٹیڑھی میڑھی انگلیوں (کام کر کر کے) اور ان کی دلربا شخصیت سے پیار ہوگیا تھا۔ بحیثیتِ پروڈیوسر ان کے کئی مصوروں، خطاطوں اور ڈیزائنروں کے ساتھ روابط رہے۔ نیشنل کالج آف آرٹس کے اساتذہ سے گاہے گاہے ملاقاتیں رہیں۔
اس کتاب میں ’’پاکستان کے مصور طائرانہ جائزہ‘‘ یہ باب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ زبان وبیاں کی خوبیوں کے علاوہ مغل حکمرانوں، عبدالرحمان چغتائی کے دور سے لے کر عہدِ حاضر کے مصوروں کے فن اور فن پاروں کا جس علمیت، چابُک دستی، فنی مہارت اورخوش اسلوبی سے جائزہ لیا گیا ہے، وہ مصنف کی فنِ مصوری اور خطاطی سے گہری وابستگی کا غماز ہے۔ اس فن کے اسرار و رموز جتنے دل کش، دلربا اور آسان پیرائے میں بیان کیے ہیں، یہ انہی کا خاصا ہے۔ لیاقت علی خان صاحب کی پینٹنگز اور خطاطی کا بھی مصنف نے جس باریک بینی سے جائزہ لیا ہے، اور تشریح کی ہے،یہ دو ابواب بھی خاصے کی چیز ہیں۔
لیاقت علی خان صاحب نے جب ابوظہبی کے شیخ زاید بن سلطان النہیان کا پورٹریٹ بنایا، تو دنیا بھر میں دھوم مچ گئی۔ انہیں انعام و اکرام کے ساتھ سنہرے ہاتھ والے مصور کے نام سے پکارا گیا۔ جذبۂ حب الوطنی اور قائد اعظم سے عقیدت اور محبت نے مجبور کیا کہ وہ قائد اعظم کی پورٹریٹ بنائیں جو دنیا کی سب سے بڑی پورٹریٹ کہلائی جا سکے۔ اس پورٹریٹ کے لیے فور بائے فور کے 200 ٹکڑوں پر کام شروع کیا۔ اپنی نوکری سے آکر رات گئے تک اس پر کام کرتے۔ یوں سات ماہ کی اَن تھک محنت کے بعد پورٹریٹ تیار ہوا۔ نواز شریف سے لے کر بے نظیر تک ہر ایک کی خواہش تھی کہ اپنے ہاتھوں سے اسے نصب کریں۔مگر……!
خیر، مشرف 1999ء میں ابوظہبی گئے اور مصور لیاقت علی خان سے ملاقات کرنا چاہی۔ملاقات تو نہ ہو سکی، مگر انہوں 23 مارچ کو اس کی تنصیب کا حکم جاری کر دیا۔ انہوں نے اور ان کے بیٹوں نے رات دن کام کرکے تصویر مکمل کی اور 8 مارچ 2001ء کو پاکستان بھجوا دی، مگر 23 مارچ کو اس لیے نہ لگ سکی کہ صدر مشرف نے کہا کہ یہ بہت قیمتی تصویر ہے (دوکروڑ روپے کی)، تو ایک دن کے لیے لگانے اور اتارنے میں خراب ہوجائے گی۔ لہٰذا اس کو مستقل طور پر لگانے کے لیے کنونشن سنٹر کے باہر جگہ منتخب کی گئی۔ اس لیے تصویر کو سی ڈی اے کے حوالے کیا گیا، جو تاحال سرد خانے میں پڑی ہے۔ مَیں جب مصورِ اعظم سے ملی، تو انہوں نے جہاں ساری داستان جوش وجذبے سے سنائی…… مگر ان کے لہجے میں گہرے دکھ کی آمیزش تھی۔ یہ کہتے ہوئے کہ جانے سی ڈی اے کے گودام میں پڑے پڑے اب اس کی کیاحالت ہوگی؟ 2001ء میں لگنے والی تصویر 2021ء تک بھی نہیں لگ سکی۔ یہ کس قدر دکھ اور افسوس کی بات ہے ۔
محترم شجاعت علی راہی صاحب نے خوب صورت تشبیہات، نادر تراکیب اور نغمگی سے معمور الفاظ میں لیاقت علی خان کے فن اور شخصیت کو بیان کیا ہے۔
ابوظہبی سے مصورِ اعظم واپس اپنے وطن آئے، تو لطف اللہ کاکاخیل جو ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں، نے کوہاٹ یونیورسٹی میں ان کی تصویروں کی نمائش کا اہتمام کیا اور دل کھول کر ان کی تعریف و توصیف کی۔ نیز اعلان کیاکہ اب اس کو کہیں جانے نہ دینا۔ اپنے وطن کی مٹی کا قرض بھی چکائے اور فرزندانِ کوہاٹ کے طلبہ و طالبات کو تربیت بھی دے۔یہاں شجاعت علی راہیؔ اور مصور کے درمیان رشتۂ مودت اورمحبت استوار ہوا۔ راہیؔ صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مَیں نے اس بے پناہ محبت کرنے والے انسان سے بہت کچھ سیکھا۔ پہلے جب مَیں یونیورسٹی میں داخل ہوتا، تو سیکورٹی والوں پر ایک چھیلتی ہوئی نظر ڈال کر اپنے آفس کی جانب بگٹٹ بھاگتا……مگر چند بارجب لیاقت علی خان کے ہمراہ داخل ہونے کا موقع ملا، تو مَیں نے دیکھا کہ کروفر والے بادشاہوں، وزیراعظموں اور عظیم ہستیوں سے ملنے اور ان کی محبتیں سمیٹنے والا یہ بالا قد شخص سیکورٹی والوں کے پاس رُک کر مسکراہٹوں کی ایک بوچھاڑ کر دیتا ہے۔ لیاقت علی خان کے اس شیتل روپ نے مجھ میں بھی کسی حد تک یہ تبدیلی پیدا کردی کہ گیٹ پر کھڑے لوگوں سے مصافحہ کرکے ہی اندر کا رُخ کرتا ہوں۔‘‘
مصنف ایک اور جگہ اس بالا قد شخصیت کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں:’’میرے دل میں شاید یہ صلاحیت نہیں کہ ہر شخص کی داخلی و خارجی خوب صورتی کا اثر قبول کرسکے۔ پھر بھی چند لوگوں نے بڑا متاثر کیا۔ مثلاًایک احمد ندیم قاسمی مرحوم، سجاد بابر اور ایک لیاقت علی خان۔ ان کی جو بھی بات ہے۔ قند ہے نبات ہے۔ لگتا ہے ہم نے زندگی میں کچھ اچھے کام بھی کیے ہوں گے۔جس کاصلہ لیاقت علی خان جیسی شخصیت کی رفاقت کی صورت میں ہمارے نصیب میں لکھ دیا گیا۔‘‘
راہی صاحب کی رواں اور شاعری کا ساترنم لیے ہوئی نثرکا ایک اور اقتباس ملاحظہ کیجیے : ’’لیاقت علی خان انٹلکچول نہیں……لیکن ان کی شخصیت کا ایک اپنا رس ہے۔ایک شیتل روپ ہے۔ان کی ایک شیریں مسکراہٹ سے محفل روشن ہوجاتی ہے۔ ان کے اندر سے شیرینی، محبت اور انسانیت کی خوشبو مسلسل پھوٹتی رہتی ہے۔‘‘
ایک اور جگہ رقم طراز ہیں: ’’لیاقت علی خان کی تصویر دیکھنا گویا اپنے ذوقِ نظر کی تربیت کرنا ہے۔ سنہرے ہاتھوں والا یہ فنکار آبشارِ نیاگرا جیسے بلند مصور وخطاط ہے۔انہوں نے ریاضت کی دہکتی کٹھالی سے گزر کر نقاشی کی ہے اور کوہِ بے ستوں کاٹ کر مصوری کی رسیلی نہر جاری کی ہے۔‘‘
لیاقت علی خان کے فن کو اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سراہا گیا۔ ان کے فن پاروں کی نمائش جگہ جگہ ہوئی اور داد وتحسین سمیٹی۔ان کا دفتر انعامی شیلڈز اور اعزازات سے بھرا پڑا ہے، مگر مَیں سمجھتی ہوں کہ محترم شجاعت علی راہیؔ صاحب نے ان کے فن اور بالا قد شخصیت کو اجاگر کیا ہے۔ وہ لازوال ہے کہ لکھے ہوئے لفظ میں بڑی طاقت ہے۔ وہ زندہ رہتے ہیں۔ رستم کیانی اور احمد فرازؔ کے اس شہر کوہاٹ کے دو نامور فرزندان ’’سنہرے ہاتھ‘‘ میں زندہ و تابندہ رہیں گے۔
شجاعت علی راہیؔ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’آج تک اندرونِ ملک یا بیرونِ ملک کسی مصور نے اتنی عظیم الجثہ پورٹریٹ نہیں بنائی۔ جتنی لیاقت علی خان نے اپنے عظیم قائد کی بنائی ہے۔ آٹھ ہزار مربع فٹ اس پورٹریٹ نے اس منفرد اور باہمت مصور کا قد کاٹھ بڑھایا ہے اور انہوں نے فن مصوری میں اپنانام پکی روشنائی سے لکھوالیا ہے۔‘‘
یہ سب پڑھتے ہوئے میں سوچ رہی ہوں کہ یہ لیاقت علی خان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے سنہرے ہاتھ کی تعریف وتوصیف کے لیے ایک کھرے اور سونے کے دل جیسا انسان میسر آیا۔ جس نے اپنے قلم کو محبت وخلوص کی شیرینی اور پیار کی روشنائی میں ڈبو کر لیاقت علی خان کا منفرد پورٹریٹ بناڈالا۔ ایک ایسا خاکہ جس کے مدھر، مترنم اور دلربا الفاظ جگمگ جگمگ کرتے رہیں گے ۔
میں ہوں کوہاٹ، میرے شمس وقمر تو دیکھو
اور
مرے خدا مجھے لمحے نہ دے زمانے دے
……………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔