آج دریائے سوات وہ پرانا دریا نہیں تھا، اس کے تیور بدلے ہوئے تھے، بدلے کیا کہ یکسر مختلف تھے، آج اس کا پانی سبز و شفاف نہیں تھا، بلکہ ایسا گدلایا گدلا یا تھا جیسے کالی کیچڑ۔ آج اس کی لہریں حسبِ دستور نغمہ ریز نہیں تھیں بلکہ ایسا سہم ناک شور مچا رہی تھیں کہ نہر اور نالیاں لرزہ براندام تھیں۔ آج اس کا وہ خراماں خراماں اور ٹھمک ٹھمک چال نہ تھا جو اس کا طرہ ہے بلکہ آج تو اس کی رفتار میں گولی کی سی سرعت تھی۔ آج سوات کا یہ دریا ایسا خشم ناک اور مشتعل دکھ رہا تھا جیسے کوئی گھائل شیر سانپ کی طرح پھنکار رہا تھا اور پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ آج اس میں اس قدر شدید طغیانی تھی کہ کناروں پر سے چھلک رہا تھا اور ہر طرف بے قابو بہہ رہا تھا۔ آج ہر جگہ اس کی منزل تھی، سنگریزوں سے لے کر چٹانوں تک سب کچھ اس کی زور کے آگے بے بس تھا۔ آج کوئی پتھر اور کوئی پہاڑ اس کی راہ میں روڑہ بن سکتا تھا اور نہ اس کے بہاؤ میں تعطل پیدا کرسکتا تھا۔ آج دونوں طرف اس نے اپنے خوں ریز ہاتھ پھیلائے تھے اور جو بھی اس کے مدِ مقابل آجاتا، تو اسے مسمار کرکے بہا دیتا۔ بڑے بڑے تناور پیڑوں کو گرا دیا۔ پکی پختہ آبادیوں کو سر کے بل گرا دیا۔ ہر راستے کو مسل دیا اور ہر اونچی جگہ کو منہدم کردیا۔ بعض کھیتوں کو کرید کھرچ کر صاف کر دیا جب کہ بعض کھیتوں میں دلدل کے انبار لگا دیے۔ ہر پُل گراتا اور ہر گھر کو ہلاتا آج دریا کنارے ہوٹل تھا یا کوئی دکان، سب خسارے میں تھے۔ آج پانی کی سطح پر ساز و سامان کا ایک سیلاب تھا جو بہہ رہا تھا۔ آج دریا نے ندی نالوں کو بھی جلدی کرنے کی مہمیز لگائی تھی کہ آج ہی بہنا ہے اور وہ بھی بڑی سر مستی میں بے لگام بہہ رہے تھے اور زقندیں بھر رہے تھے۔
یہی ندی تو اُس گاؤں کی گلیوں میں پھر رہی تھی، ہر گھر میں بالٹی بالٹی کچڑ پھینکتی اور چلی جاتی۔ آج ہر گھر کا آنگن آنگن نہیں تھا، دھان کا کھیت تھا۔ ہمارے گاؤں میں تو قیامت تھی۔ اردگرد غم و اندوہ کی کالی دھند پھیلی ہوئی تھی۔ ہر چہرے پر خوف و ہراس کی گرد بیٹھی ہوئی تھی۔ ہر منھ اور ہر زبان اس ورد میں ہل رہی تھی کہ اے پروردگار خیر، اے پروردگار خیر! ہر آنکھ ڈبڈبائی ہوئی تھی اور ہر حلق بھرایا ہوا تھا۔ کون اُن دردناک چیخوں کو سنتا جو بھی اُن ماؤں کو دیکھتا تو اُن کا دل یک لخت دو ہوجاتا۔ وہ عورتیں کبھی دریا کے وسط میں کھڑے درختوں کو دیکھتیں اور کبھی کنارے کھڑے لوگوں کو دیکھتیں۔ آج اُن کی تر آنکھیں سب کے سامنے لجاجت و سماجت کا دامن پھیلائیں اور ہر ایک کے چرنوں پڑتیں۔ ہر ایک الگ الگ کہتی: ’’اے اُن درختوں میں میرا لخت جگر پھنسا ہوا ہے جو میری آنکھ کا تارا ہے، میرے دل کا ٹکڑا ہے، میرا دل پگھلا رہا ہے، پانی کے وسط میں گھرا ہوا ہے، اُن درختوں سے چمٹا ہوا ہے۔ وہ زندہ ہے زندہ، خدا اسے زندہ رکھے۔ خدا کے لیے اُس کے پاس چلے جاؤ اور اسے نکال لاؤ۔‘‘

’’اے اُن درختوں میں میرا لخت جگر پھنسا ہوا ہے جو میری آنکھ کا تارا ہے، میرے دل کا ٹکڑا ہے، میرا دل پگھلا رہا ہے، پانی کے وسط میں گھرا ہوا ہے، اُن درختوں سے چمٹا ہوا ہے۔ وہ زندہ ہے زندہ، خدا اسے زندہ رکھے۔ خدا کے لیے اُس کے پاس چلے جاؤ اور اسے نکال لاؤ۔‘‘

اور پھر اضطراری اور بے اختیار انداز میں گھرے ہوئے لڑکوں کی طرف دیکھتیں اور گویا ہوتیں: ’’اے میرے بے بس کے خدا، اے میرے عاجز بچے، خدا، آپ کو اپنے امان میں رکھے۔”

کون کیا کرسکتا تھا، کوئی کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اُن فلک بوس اور ٹھاٹھیں مارتی ہوئی موجوں میں کون چھلانگ لگاسکتا تھا (جو ایلم اور بینے کے پہاڑوں جتنی بلند تھیں) رفتہ رفتہ طغیانی زیادہ ہوتی جا رہی تھی پیڑ گرتے جا رہے تھے اور ایک ایک نوجوان پانی کے جبڑوں کی نذر ہوتا جا رہا تھا۔ آج اسی طغیانی کے تیور غضبناک تھے، ہر چیز پر ایسے قہر آلودہ نظر ڈال رہی تھی جیسے انھی نے اس کے اشجار کے ہر پیر کاٹے ہیں۔ آرو اور کلہاڑیوں سے جیسے کہ انھی نے اس کی گریبان میں ہاتھ ڈالے ہوں جیسے کہ انھی نے اس کی برف پگھلائی ہو، دھویں اور شعلوں سے۔
(بدرالحکیم حکیم زئی کے پشتو مضمون ’’پاریدلی اوبہ‘‘ کو لفظونہ کے لیے سبحانی جوہرؔ نے ’’بپھرا ہوا پانی‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا، واضح رہے کہ یہ مضمون 2010ء کے سیلاب کے تناظر میں لکھا گیا تھا)