فروغِ ادب میں مختلف ادبی تنظیمیں کسی نہ کسی طرح سے اپنا حصہ ڈالے جارہی ہیں۔ گو کہ یہ تنظیمیں زیادہ تر تعصب، عناد اور ’’جیلسی‘‘ کی بنیاد پر عمل میں آتی ہیں۔ لیکن پھر بھی (جیسا بھی ہو) ادب کے دامن کو وسیع کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہیں۔ سوات میں بھی دو درجن سے زائد ادبی تنظیمیں ہیں، جن میں کچھ قدیم جبکہ چند ایک حال ہی میں وجود میں آئی ہیں۔ جبکہ چند ایک تو وقت گزرنے کے ساتھ اپنی موت آپ مر جاتی ہیں۔ ان کے بکھرے نمائندے پھر سے اک نئے عزم، جوش اور ولولے کے ساتھ اک نئی تنظیم کا حصہ بنتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہو ہا رہتی ہے اور پھر ٹائیں ٹائیں فش۔ تاریخ گواہ ہے کہ جوش اور جذبات میں بننے والی یہ ادبی تنظیمیں دھیرے دھیرے اپنا وجود خود ہی کھو بیٹھتی ہیں۔ خدا لگتی کہوں، تو سوات میں گنتی کے چند مخلص ادیبوں اور شاعروں کو تو انگلیوں ہی پہ گنا جاسکتا ہے۔ باقی رہے نام خدا کا۔

ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے

ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے

سوات کو اگر دو حصوں میں بانٹا جائے، تو برسوات جو قدرت کا ارمغانِ خاص ہے، اس میں بھی ادب کے متوالے مختلف ادبی تنظیموں میں بٹے ہوئے ہیں۔ لیکن ان میں چند ایک ادبی تنظیموں نے اپنے وجود کو مزید مستحکم کرنے کے لیے انضمام کیا، متحد ہوئے اور ’’سوات ادبی و ثقافتی تڑون‘‘ کی صورت میں اک تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ گزشتہ دنوں اس تنظیم نے اک منفرد قسم کی ادبی تقریب کا انعقاد کیا۔ جس میں بہ یک مشت دس عدد کتب کی تقریب رونمائی کر ڈالی اور لگے ہاتھوں ساتھ ہی ساتھ اک مشاعرہ بھی ’’ٹوچین‘‘ کر دیا۔ اس با وقار تقریب کے میزبان ’’سوات ادبی و ثقافتی تڑون‘‘ کے چیئرمین، کئی ایک اردو، پشتو کتابوں کے مصنف، محقق، نقاد، شاعر، ادیب اور کئی ایک ریڈیائی پروگراموں کی میزبانی کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زیٔ تھے۔ جبکہ اُن کے بڑے بھائی خیر الحکیم حکیم زیٔ صدرِ محفل تھے۔ مہمانِ خصوصی کے لیے انہوں نے ریاست سوات کی پرنس فیملی کے شہزادہ شہریار امیرزیب کو دعوت دے رکھی تھی۔ خوشحال ادبی ٹولنہ کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر ظاہر شاہ اعزازی مہمان تھے۔ ان کے ساتھ ’’سوات ادبی و ثقافتی تڑون‘‘ کے جنرل سیکرٹری جناب کرم مندوخیل جو محقق، ادیب اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایف ایم ریڈیو خوازہ خیلہ، سوات کے روحِ رواں بھی ہیں، اعزازی مہمان تھے۔ دیگر اعزازی مہمانوں میں میاں علی نواب پریشان کے علاوہ سوات کے مقبول و معروف اور منفرد لب و لہجے کے شیریں گفتار شاعر، افسانہ نگار اور نقاد جناب حنیف قیس (جو میرے کلی وال بھی ہیں) اعزازی مہمان کی کرسی پر براجمان تھے۔

تلاوتِ کلام پاک کے بعد دس کتابوں پہ مشترکہ نقد و نظر کا تبصرہ کرنے کے لیے جناب کرم مندوخیل کو دعوت دی گئی۔ جنہوں نے انشایئے کے انداز میں اپنی مسکان زیر لبی شامل کرکے مختلف کتابوں کا تعارف کیا۔ پہلی کتاب ’’زیرے‘‘ تھی۔ جس کے مصنف عبدالحکیم (مرحوم) ہیں، یہ کتاب طبقاتی کشمکش کے گرد گھومتی ہے۔ دوسری کتاب ’’سوات میں دہشت گردی کے چند محرکات‘‘ از بدرالحکیم حکیم زیٔ کا تحقیقی مقالہ ہے (جس پہ جلد میرا کالم آنے والا ہے) تیسری کتاب وکیل خیر الحکیم حکیم زیٔ کی تھی، جس کا نام ’’د سند پہ غاڑہ تگی‘‘ ہے۔ اس کا موضوع بھی معاشرتی الجھنوں کے گرد گھومتا ہے۔ چوتھی کتاب سالار یوسفزیٔ کی تھی، جو غنی خان کے فلسفیانہ فکر کے طرز کی کتاب ہے۔ جس کا نام ’’لیونی فکرونہ‘‘ ہے۔ پانچویں کتاب بدرالحکیم حکیم زیٔ کی ’’گنجتہ الگوہری‘‘ تھی۔ یہ قدیم شاعری کا انتخاب ہے جسے ژرف نگاہی سے یکجا کرکے ضائع ہونے سے بچایا گیا ہے۔ چھٹی کتاب سید محمد ایوب ہاشمی کا پشتو شعری مجموعہ ’’خالونہ او خاپونہ‘‘ تھی۔ ساتویں اور آٹھویں کتابیں بالترتیب ’’پھی پہ پرھر‘‘ اور ’’داغونہ می خالونہ کڑل‘‘ معروف شاعر سراج الدین سراج کے شعری مجموعے تھیں۔ نویں کتاب سوات ادبی ’’غورزنگ‘‘ کے جہانزیب دلسوزؔ کی شاعری کی کتاب ’’اغیزمن احساسات‘‘ تھی۔ جبکہ دسویں کتاب ’’میاں قاسم باباؒ‘‘ کی زندگی اور کارناموں پر مشتمل تھی۔ یہ تحقیقی کتاب سید ناصر علی شاہ اور بدرالحکیم حکیم زیٔ کی مشترکہ کاوش تھی۔
اس مختصر سے تعارف کے بعد مشاعرے کی نشست شروع ہوگئی۔ فضل معبود شاکرؔ، حضرت نبی داؤدی، ڈاکٹر نورالبصر امنؔ، رجب علی رجبؔ، محمد شاہ روغانےؔ، باچا زادہ بے تابؔ، سمیع اللہ گرانؔ، خورشید علی خورشیدؔ، ڈاکٹر ظاہر شاہ ظاہرؔ، ناصر ریشمؔ، محمد رشید رشیدؔ، بہادر شیر افغانؔ، میاں علی نواب پریشانؔ، علی اکبر سواتیؔ، ننگیال اخون خیل، کرم مندوخیل، محمد شیر خان، شمس النبی اظہارؔ، سردار علی سردارؔ، فیض علی خان صدفؔ اور ریاض احمد حیرانؔ نے اپنے اپنے کلام پیش کئے۔ ان میں کرم حکیم صاحب نے دف بجا کر مزاحیہ کلام پیش کئے اور داد کے ساتھ انعام بھی وصول کیا۔ سوات ادبی سانگہ کے صدر روح الامین نایابؔ کی ہوش رُبا ادبی تقریر نے لوگوں کے رونگٹے کھڑے کر دیئے۔ ساجد ریحانؔ اور واثق بااللہ نے بھی اپنے دل کھولے۔ جبکہ بخت زر دریابؔ نے کہا کہ ’’ہمارے ادب میں بھی قبضہ مافیا ہے، جس نے ادب کو یرغمال بنالیا ہے۔ یہ قبضہ گروپ والے نوجوانوں کو آگے نہیں بڑھنے دیتے۔‘‘ اصغر علی شاہ نے اعلان کیا کہ ’’سوات کے شعرا اپنا ایک ایک منتخب کلام مجھے دیں، میں کتابی شکل میں چھپوا دوں گا۔‘‘ چوں کہ شرکا بہت زیادہ تھے اور وقت کم تھا اس لیے مہمانِ خصوصی بھی دو باتیں کرکے کھسک گئے۔ شیر شاہ آبشارؔ اور روزی خان لیونے وقت کی قلت کے باعث کلام سنائے بغیر ہی واپس ہوگئے۔ مجبوراً مجھے بھی اُن کے ساتھ اُٹھنا پڑا ورنہ میں حنیف قیسؔ کو سننا چاہتا تھا۔