میں اور میرا عزیز دوست سمیع اللہ گرانؔ کسی کام کے سلسلے میں سوات سے پشاور گئے۔گرانؔ مجھے اپنے دوست ایاز اللہ ترکز ئیؔ کے پاس لے گیا۔جن کا محلہ جنگی میں چھاپ خانہ ہے۔ بہت محبت کرنے والے، شفیق اور حلیم قسم کے ایاز اللہ نے محبتوں سے نہال کر دیا۔ رخصت ہوتے ہوئے مجھے اپنے ادارے کی طرف سے چند ایک کتابیں تحفتاً دیں۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’ اندھے کو کیا چاہئے،دو آنکھیں۔ ‘‘ کچھ ایسی ہی مسرت ہمیں بھی ہوئی۔ ہم جیسے کتابی کیڑوں کو کتابیں مل جائیں اور وہ بھی مفت میں تو وارے نیارے ہی ہو جاتے ہیں۔

راشدہ ماہینؔ کی کتاب "دل والی دلی میں’

ان کتابوں میں ’’ دِل والی دِلّی میں ‘‘ بھی تھی۔ انتہا ئی ملائم اور قیمتی کاغذ کی یہ مختصر سی کتا ب بظاہر تو چھیانوے صفحات پر مشتمل ہے۔ لیکن اندرونی صفحات میں معلومات کے بیش بہا جواہرات کا اِک خزینہ رکھتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب ایک سفرنامہ ہے لیکن اِس میں بیک وقت تاریخ، ادب، رپورتاژ اور شاعری جیسی اصناف کا بھرپور ٹیسٹ بھی موجود ہے۔ جسے محترمہ راشدہ ماہین ملک نے اپنے کر شماتی قلم سے قلم بند کیا ہے۔
محترمہ وفاقی اردو یو نیورسٹی اسلام آباد میں سوشل سٹڈی کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ لیکن ذہنی اُپچ ،بہا ؤ اور لگاؤ اردو ادب سے ہے۔اردو میں شاعری کرتی ہیں۔ مذکورہ کتاب کا مطالعہ کرنے سے قاری کو معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے دوشعری مجموعے بھی منظر عام پہ آچکے ہیں جن میں ایک کا نام ’’باغ‘‘ ہے۔آپ کی شاعری میں خوشبو، تتلی، پھول اور جگنو جیسے بھر پور استعارے موجود ہیں۔ لکھتی ہیں:
صاحب میں تیرے ناز اُٹھانے نہیں آئی
بس دیکھنے آئی ہوں ،منانے نہیں آئی
آئی ہوں تیرے شہر کی گلیوں میں بھٹکنے
لیکن کوئی آواز لگانے نہیں آئی
’’دل والی دلّی میں‘‘ کافی عرصے سے میرے سر ہانے پڑھی جانے والی کتابوں کی قطار میں میرا انتظار کر رہی تھی۔ مجھے کیا پتا تھا کہ کتاب اتنی دِلچسپ، معلوماتی اور کرشماتی ہے کہ مجھے ایک ہی نشست میں تمام کرنے پر مجبور کرے گی۔ بخدا رمضان کا روزہ پلک جھپکنے ہی گزر گیا اور صبح سے شام ہوتے ہی چھیانوے صفحے میرے دماغ میں سرایت کر چکے تھے۔
مذکورہ کتاب کا اہتمام ہمارے پشاور کے معروف شاعر اور کالم نگار حُسّام حرؔ نے کیا۔ جبکہ ناصر علی سیّد جیسے اچھوتے نثر نگار نے اس پہ کمال کا حاشیہ لکھا ہے۔جس میں انہوں نے مصنفہ کی تن تنہا بھارت یاترا کو ان کے اعتماد اور شجاعت کی دلیل قرار دیاہے۔ انہوں نے اُن کے چھوٹے چھوٹے معنی خیز جملوں پہ بھی انہیں داد دی ہے۔ سفر کو وسیلۂ ظفر قرار دیا جاتا ہے۔ اسفار سے نت نئے جہانوں اور انسانوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔

راشدہ ماہین کا شاعری مجموعہ "باغ”

مذکورہ سفرنامہ نگار کا چونکہ ادب اور تاریخ دونوں سے واسطہ ہے۔اس لیے اُن کی دلگداز، شگفتہ اور بر جستہ تحریر میں ادبی چاشنی کے ساتھ ساتھ دِلّی اور لکھنو کے بارے میں تاریخی معلومات اور حقائق بھی موجود ہیں۔ وہ ایک کامیاب سفر نامہ نگار کی طرح قاری کو انگلی سے پکڑ کر دِلّی، اجمیر، لکھنؤ اور پرتاب گڑھ کی گلیوں، چوباروں اور بازاروں کی سیر تو کرا تی ہی ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ کچھ انکشافات، حادثات اور بعض مخفی تاریخی واقعات کو بھی منفرد انداز میں بیان کرکے قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ مثلاً لال قلعہ دِلّی کی تاریخ، مغلیہ عہد کے پل پل بدلتے حالات، شہزادوں کی رنگ رلیاں، شہزادیوں کی محرومیاں، محلاتی سازشیں اور پھر بہادر شاہ ظفرؔ کا المیہ۔اس سے ہٹ کر اُردو ادب کے گہوار ے لکھنؤ کی تاریخ،ادبی واقعات، میرؔ ، سودــاؔ، مصحفیؔ، آتشؔ،غالبؔ، داغؔ، انیسؔ، دبیرؔ اور سر سید کے قصے،غالب ؔ کے محلہ بلی ماراں کی سیر اور موقع محل پہ انہی کے اشعار کے تڑکے سونے پہ سہاگے ہی کا کام توکرتے رہے۔ اگر انہوں نے اک طر ف دلّی کی ’’آہ‘‘ کا ذِکر کیا ہے، تو دوسری طرف لکھنو کی ’’واہ‘‘ کو بھی اچھوتے انداز میں بیان کیا ہے۔
مثلاً ناسخ ؔ کے متعلق مصنفہ لکھتی ہیں کہ ’’ وہ بڑے تن و توش کے اور قوی ہیکل آدمی تھے۔ غیر شادی شدہ تھے۔ دن میں ایک مرتبہ کھانا کھاتے،مگر اس ایک وقت میں تقریباً پانچ سیر غذا نوش جاں کر لیتے۔ رنگ سیا ہ تھا۔ ان کے حریف اور با مذاق لوگ ان پر دم کٹے بھینسے کی پھبتی کستے تھے۔‘‘
اسی طرح جگہ جگہ اشعار کے حوالے بھی موجود ہیں مثلاً جب میرؔ دلّی سے لکھنؤ گئے، تو یوں کہا:
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
ہم رہنے والے ہیں اُسی اُجڑے دیارکے
لکھنویت کے رنگ میں رنگا امیرؔ مینائی کا یہ شعر بھی کتاب کی زینت ہے کہ
خود تیرے ہونٹ یہ کہتے ہیں کہ بو سہ لے لو
اورمعشوق کی ہوتی ہے نزاکت کیسی ؟
جب امیرؔ مینائی کے خلاف معرکہ آرائی ہوئی، تو داغ ؔ نے یہ شعر داغ دیا:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سار ے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

شاعرہ، ادیبہ اور مصنفہ "راشدہ ماہین۔”

مصنفہ کو اِس سفر کی دعوت بھارت کے جمیل اصغر صاحب نے دی تھی، جو لکھنؤ میں عموماً عظیم الشان مشاعرے کراتے ہیں۔ پاکستان سے صرف آپ ہی کو بلایا گیا تھا، جو آپ کے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی۔ بھارت میں لوگ ٹکٹ لے کر مشاعرہ سنتے ہیں۔مصنفہ پہلی مر تبہ بیس ہزار کے مجمعے کے سامنے غزل سرا ہو ئیں۔ ہر ہر شعر پہ بھر پور داد وصول کی۔پہلی غزل کا مطلع تھا :
اتنا کچھ باغ میں تصویر کیا پھولوں نے
جو بھی آیا اُسے تصویر کیا پھولوں نے
دوسری غزل کا عندیہ ملا، تو یہ غزل پڑھی:
میری ہر سانس میں رکھا گیا جادو اُس کا
پھر بھی روشن نہیں ہوتا کوئی پہلو اُس کا
پھر اِس غزل کی فرمائش ہوئی:
پہلے تو سب پہ خامشی طاری کروں گی میں
پھر اس کے بعد بات تمہاری کروں گی میں
جبکہ آخر میں یہ غزل بھی سنائی گئی:
منظر میں رنگ بھر کے وہ تتلی چلی گئی
آنکھوں سے یوں گزر کے وہ تتلی چلی گئی
اِک پاکستانی شاعرہ کو بھارت میں جو فقید المثال پذیرائی اور عزت افزائی ملی، اس کتاب میں اُس کا ذکر بھی ہے ۔یہی نہیں بلکہ دورانِ سفر وہ اپنے میزبانوں کے ساتھ ساتھ پولیس والوں، بُک شاپ والوں، ٹیکسی والوں یہاں تک رکشہ سائیکل والوں سے بھی کافی مطمئن اور مسرور واپس آئیں، جس سے منفی تاثر زائل ہوتا ہے۔
پروف کی بعض اغلاط کے باوجود کتاب بڑی دلچسپ اور معلوماتی ہے جو اُردو ادب کے باذوق قاری کو ضرور پسند آئے گی۔