پاکستانی قوم ہر سال اسی مہینے کی 9 تاریخ کو اپنے قومی شاعر، عاشقِ رسول صلعم، مفکر و فلسفی اور اتحاد بین المسلمین کے داعی حضرت علامہ محمد اقبال کی یوم پیدائش نہایت عقیدت و احترام سے مناتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ برصغیر کے مسلمان اپنے ماضی کو بھلا کر فکری انتشار کا شکار تھے۔ سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے بعد انہیں اپنی منزلِ مقصود معلوم نہیں تھی اور ان کا قافلہ بھول بھلیوں میں بھٹک رہا تھا۔ اس وقت آسمانِ شاعری کے درخشندہ ستارے علامہ اقبال نے اپنی آفاقی شاعری کے ذریعے ان کی راہنمائی کی۔
علامہ (مرحوم) کی جامع شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ بڑے بڑے علما، فضلا اور مذہبی سکالرز نے ان کی فکری سمت اور علمی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ علامہ ایک سچے عاشق رسولﷺ تھے اور تمام عمر عشق رسولﷺ اور فراقِ رسول صلعم میں تڑپتے رہے۔ ان کے یہ دو اشعار ملاحظہ ہوں:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبال
اُڑا کے مجھ کو غبارِ رہِ حجاز کرے
علامہ کے دل میں اپنی قوم اور وطن کا درد تھا۔ آپ اپنی قوم اور وطن کو اغیار کی غلامی سے نجات دلانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی قوم کے تنِ مردہ میں جان ڈالنے اور خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے شاعری سے کام لیا۔ علامہ مسلمان نوجوانوں کو سخت کوش اور بلند ہمت بنانے کی خواہش کرتے ہیں، تاکہ یہ کار زارِ حیات میں کار ہائے نمایاں انجام دے سکیں۔ اس سلسلے میں فرماتے ہیں۔
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
دوسری جگہ اُمتِ مسلمہ کے نوجوانوں کو اپنے اسلاف کی تاریخ ساز کارناموں سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے یوں فرماتے ہیں:
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا جس کا تو ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا
علامہ کی شاعری میں فلسفۂ خودی کو اہم مقام حاصل ہے بلکہ اگر اسے ان کی شاعری کی جان کہا جائے، تو بے جانہ ہوگا۔ فلسفۂ خودی علامہ کے نزدیک اپنے کردار کو بلند کرنا اور ہنر مندی سیکھنا ہے۔ ایسی ہنر مندی جو مسلم نوجوانوں کو دنیا کی بلند قوموں کی صف میں لاکھڑا کردے۔ اس بارے میں ان کا یہ ایک مشہور شعر ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

علامہ کی شاعری میں فلسفۂ خودی کو اہم مقام حاصل ہے.(Photo: pakobserver.net)

علامہ کی شاعری میں عمل کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ آپ نے عمل کو ہر چیز کی بنیاد قرار دیا ہے۔ چناں چہ فرماتے ہیں
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
علامہ اتحاد بین المسلمین اور وحدتِ ملت کے بڑے علمبردار ہیں۔ ان کی شاعری کا یہ ایک روشن تصور ہے۔ آپ تمام دنیا کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر ہم آہنگ دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ علامہ کے خیال میں مسلمانانِ عالم کی کامیابی کا راز اتفاق و اتحاد میں مضمر ہے۔ آپ رنگ، نسل، زبان اور وطنیت کے محدود تصورات سے مسلمانوں کو نکلنے کا خیال دیتے ہیں۔ آپ مسلم اُمہ کو واحد لڑی میں پروکر کار زارِ حیات میں بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ شعر کتنی بڑی حقیقت پر مبنی ہے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
علامہ نے قیامِ یورپ کے دوران میں مغربی تہذیب کا بغور مشاہدہ کیا تھا اور اسے مسلمانوں کے لیے زہرِ قاتل قرار دیا تھا۔ ان کی دور بین نگاہوں نے مغربی تہذیب کی خامیاں اور خرابیاں، دیکھ لی تھیں اور بہت پہلے ہی مغربی تہذیب کی زوال کی پیش گوئی کردی تھی۔ اس بارے میں مغرب والوں سے کچھ یوں مخاطب ہیں کہ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
ایک سچے عاشق رسول صلعم کی حیثیت سے علامہ کو آنحضرت صلعم کے صحابہ کرام ؓ سے بے حد محبت اور عقیدت تھی۔ آپ اسلام کی ترقی و ترویج اور ملت اسلامیہ کی نشاط و سرخ روئی صحابہ کرام ؓ کی دین سے سچی محبت اور محنت کا سبب قرار دیتے ہیں اور یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ آنحضرت صلعم کی وفات کے بعد دورِ صحابہ ؓ میں بڑی بڑی فتوحات ہوئیں۔ اسلامی مملکت کی حدود عرب سے لے کر ایران، عراق، افغانستان، افریقہ، ہندوستان اور یورپ تک پھیل گئیں۔ مسلمان افواج نے اُس وقت کے سپر پاؤرز کو پاؤں تلے روند ڈالا اور ان کے غرور کو خاک میں ملادیا۔ اس حوالہ سے فرماتے ہیں
مٹایا قیصر و کسریٰ کی استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا زورِ حیدرؓ، فقر بوذرؓ، صدقِ سلمانیؓ
اُمت مسلمہ پر آج پھر برا وقت آیا ہوا ہے۔ کافی مادی وسائل اور افرادی قوت کے باوجود مسلمانانِ عالم دنیاکے ہر خطے میں ذلیل و خوار اور دوسروں کے دست نگر ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس فلسفی شاعر کے آفاقی کلام کو سمجھا جائے، ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کیا جائے۔
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ مے خانہ

……………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔