تحریر: خالد فرہاد 
’’سرجیت پاتر‘‘ (Surjit Patar) پنجابی زبان کے نام ور شاعر ہیں۔ اُن کی شاعری لوگوں میں بہت مقبول ہے۔ 14 جنوری 1945ء کو وہ ضلع جالندھر کے گاؤں ’’پتر کلاں‘‘ میں پیدا ہوئے۔ اپنے گاؤں کی نسبت سے تخلص ’’پاتر‘‘ رکھا۔ رندھیر کالج، کپورتھلہ سے گریجویشن کے بعد انھوں نے پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ سے پنجابی میں ایم اے کیا۔ بعد ازاں گرو نانک دیو یونیورسٹی، امرتسر سے ’’گرو نانک بانی میں لوک ادب کی کایا پلٹ‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی۔ تدریس کا پیشہ اختیار کیا اور زرعی یونیورسٹی لدھیانہ سے پنجابی پروفیسر کے طور پر سبک دوش ہوئے۔ انھوں نے 60ء کی دہائی کے نصف میں نظم لکھنا شروع کی۔
ڈاکٹر پاتر ایک مترجم اور سکرپٹ رائٹر بھی ہیں۔ اُن کے شعری مجموعوں میں ’’ہوا میں لکھے حرف‘‘، ’’درخت عرض کرے‘‘، ’’اندھیرے میں سلگتے حروف‘‘، ’’لفظوں کی بارگاہ‘‘، ’’پت جھڑ کی پازیب‘‘ ، ’’سُر زمین‘‘ اور ’’چاند سورج کا پالنا‘‘ شامل ہیں۔
پاتر نے پنجابی فلم ’’شہید ادھم سنگھ‘‘ اور ’’پردیس‘‘، دیپا مہتہ کی فلم ’’ہیون آن ارتھ‘‘ کی پنجابی ڈبنگ کے لیے مکالمے بھی لکھے ہیں۔
پاتر نے ’’فیڈرکو گارسیا لورکا‘‘ کے تین المیہ ناٹک، گریش کرناڈ کا ڈراما ’’ناگ منڈل‘‘ اور برتھولت بریخت اور پابلو نیرودا کی نظمیں پنجابی میں ترجمہ کی ہیں۔
پاتر نے شیخ فرید سے لے کر شوکمار بٹالوی تک پنجابی شاعروں پر بننے والی دستاویزی فلموں کے سکرپٹ بھی لکھے۔ وہ 2002ء میں پنجابی ساہتیہ اکادمی لدھیانہ کے صدر منتخب ہوئے اور 2008ء تک اس عہدے پر سرگرمِ عمل رہے۔ بعد ازاں 2013ء میں پنجاب حکومت نے انھیں ’’پنجاب آرٹس کونسل چنڈی گڑھ‘‘ کا چیئرمین مقرر کیا۔ وہ وزیرِ اعلا پنجاب کے مشیر برائے ثقافتی امور بھی رہے ہیں۔
پاتر کو 1979ء میں ’’پنجاب ساہتیہ اکادمی انعام‘‘ دیا گیا، جو انھوں نے 2015ء میں واپس کر دیا تھا۔ 1993ء میں انھیں ’’اندھیرے میں سلگتے حروف‘‘ کے لیے ’’ساہتیہ اکادمی انعام‘‘ ملا۔ انھیں 1999ء میں بھارتی بھاشا پریشد کلکتہ کی طرف سے ’’پنچند ایوارڈ‘‘ ، 2007ء میں ’’ششوت شعری اعزاز‘‘، 2009ء میں برلا فاؤنڈیشن کی طرف سے ’’سرسوتی ایوارڈ‘‘ اور 2012ء میں گورو نانک دیو یونیورسٹی امرتسر نے ’’ڈاکٹر آف فلاسفی‘‘ کی اعزازی ڈگری دی۔ انھیں 2012ء میں ہندوستان کا سب سے اعلا قومی اعزاز ’’پدم شری‘‘ دیا گیا۔ 2014ء میں وہ ’’کسماگرج ساہتیہ پرسکار‘‘ سے نوازے گئے۔
پاتر نے کسانوں کے خلاف بنائے گئے متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف بطورِ احتجاج دسمبر 2020ء میں ’’پدم شری ایوارڈ‘‘ واپس کر دیا تھا۔مرکزی حکومت کو پنجابی میں لکھے گئے اپنے مختصر خط میں انعام واپس کرنے کی وجہ یوں بتائی: ’’حکومت کسانوں کے ساتھ جو سلوک کر رہی ہے، اُسے بیان کرتے ہوئے بھی دکھ ہوتا ہے۔ حکومت کو کسانوں کا درد سمجھنا چاہیے۔ مَیں بوجھل دل کے ساتھ پدم شری ایوارڈ واپس کر رہا ہوں۔‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔