یہ لوگ سیدوبابا سے سلسلۂ نسب کی وجہ سے سوات پر حکمرانی کا عزم رکھتے تھے۔ ان کے پاس لوگوں کی حمایت بھی تھی اور اثر ورسوخ بھی تھا۔ ریاست کے قیام کے بعد عبدالجبار شاہ کے عہد میں وہ اس چیز کو اپنے ارادوں کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے پر جت گئے۔
سوات میں ایک غیرمذہبی سیاسی قیادت کی نمائندہ شکل تو خوانین کی تھی، لیکن مذہبی افراد ایک اور قسم کی قیادت کی نمائندگی کررہے تھے۔ ان مذہبی افراد میں سیدو بابا کے چار پوتے بھی شامل تھے، جو یوں تو کھلے دل کے شرفا سی زندگی گزارتے تھے، لیکن اپنے سلسلۂ نسب اور سیدو بابا کے مزار سے تعلق کی وجہ سے انہیں خاصا رسوخ حاصل تھا۔ ان میں سے ہر ایک اقتدار کا بھوکا تھا اور سوات میں اپنی بلا شرکتِ غیرے حکومت کا متمنی تھا۔ ان میں سے ہر ایک کو بیرونی حریفوں سے پہلے خاندان کے اندر تین حریفوں سے نمٹنا تھا۔
حریفوں سے اپنا راستہ صاف کرنے کے لیے شروع ہونے والی کشاکش میں میاں گل عبدالودود نے 1903ء میں اپنے چچا زاد بھائی میاں گل عبدالرزاق (المعروف سید باچا) کو قتل کر ڈالا جس کے نتیجہ میں مقتول کے سگے بھائی میاں گل عبدالواحد (المعروف امیر باچا) اور میاں گل عبدالودود میں جان نشینی کے لیے جنگ چھڑ گئی۔ اُسے بھی نومبر 1907ء میں میاں گل عبدالودود نے کہیں باہر شکار کے دوران میں گولی ماردی۔
چچا زاد بھائیوں کا صفایا کرنے کے بعد اب صرف یہ دو سگے بھائی رہ گئے، یعنی میاں گل عبدالودود اور میاں گل شیرین جان۔ ایک دوسرے سے حسد اور ذاتی جاہ طلبی کی خواہش نے دونوں بھائیوں کو ایک ساتھ رہنے اور اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کو یک جا کرنے میں ہمیشہ رکاؤٹ ڈالی۔ حالاں کہ سوات میں دونوں کو بہت اثر و رسوخ حاصل تھا،لیکن وہ دونوں ایک دوسرے سے مفاہمت کو تیار نہیں تھے۔ بائیں کنارے کے سواتی باشندے ان دونوں بھائیوں کی حمایت میں ایک دوسرے سے مسلسل دست و گریبان تھے۔ عبدالودود پہلے ہی اپنے دو چچا زاد بھائی قتل کرچکا تھا، اس لیے قدرتی طورپر اُس کا بھائی اُس پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ان کے حامی بھی اس گھٹیا بے مقصد لڑائی سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ اس دوران میں ایک لڑکے کی اچانک خود کو اخوند کا پوتا ہونے کے اعلان نے خاصی ہلچل مچادی اور انتشار میں مزید اضافہ ہوگیا۔
گو کہ انگریز سرکار سے اُن کے تعلقات بہت عمدہ تھے، لیکن ایک دوسرے اور اپنے حامیوں کے ساتھ لڑائی میں وہ بری طرح پھنسے ہوئے تھے۔ ان کی آپس کی ایک شدید لڑائی کے بعد انہیں پولی ٹیکل حکام نے ملاکنڈ طلب کرلیا، تاکہ ان کے درمیان ایک معاہدہ کرایا جائے کہ وہ منجملہ اور باتوں کے سیدو بابا کے مزار کے لیے آپس میں لڑنا بند کر دیں۔ چوں کہ 1911ء میں ملاکنڈ میں طے پا جانے والے اس معاہدہ پر وہ عمل درآمد نہیں کرسکے، اس لیے 1912ء میں انہیں دوبارہ ملاکنڈ طلب کرلیا گیا اور معاملات عارضی طورپر حل کرلیے گئے لیکن اس سال کے اختتام پر عبدالودود کے حامی ہر طرف چھاگئے اور سیدو اور بابا کا مزار مکمل طور پر اُس کے قبضہ میں آگئے۔
سوات بالا کے سب قبائل کے دستے اس جنگ میں شریک ہوگئے۔ عبدالودود نے کاٹیلئی (امانکوٹ) کے قلعہ پر دھوکا سے قبضہ کرلیا اور اباخیل اور موسیٰ خیل علاقوں کے علاوہ اُس کے گروہ کو ہر جگہ غلبہ حاصل ہوگیا۔ ایک ہفتہ بعد شیرین جان کے لوگوں نے عبدالودود کے حامیوں پر ایک ناکام حملہ کیا، لیکن عبدالودود نے اوڈیگرام اور بلوگرام پر بھی قبضہ کرلیا۔ جنوری 1913ء میں مفاہمت ہوگئی لیکن سال کے اختتام تک اس بات کے آثار ہویدا تھے کہ یہ مصالحت چلے گی نہیں۔
نوابِ دیرنے ان میں سے ہر ایک بھائی کے ساتھ اپنی شرائط پر معاملات طے کرنے چاہے۔ اُس نے شیرین جان کی مدد کے لیے اپنے آدمی بھی بھیجے۔ دونوں بھائیوں نے نواب سے ملاقات کی۔ مذاکرات کے دوران میں اُس نے کھلم کھلا شیرین جان کی حمایت کی۔ اس پر عبدالودود اور اباخیل اور موسیٰ خیل کے جرگہ نے احتجاج کیا کہ وہ ان کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ اسلحہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دونوں نے اپنے کارخانے لگائے اور ماہر کاریگروں کو ملازم رکھا۔
میاں گل بھائیوں نے ایک بار پھر صلح کرلی اور ایک دوسرے سے چھینے ہوئے ہتھیار ایک دوسرے کو واپس کر دیے۔ انہوں نے مختلف علاقوں میں اپنے قلعے بنانے کے لیے بعض مَلَکوں سے باضابطہ اجازت مانگی ،تاکہ لوگوں سے عشر لینا شرو ع کرسکیں، لیکن جلد ہی انہوں نے دوبارہ ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیا۔ ایک بار اور صلح کا معاہدہ ہوا جس کی رو سے قمبر عبدالودود اور تختہ بند شیرین جان کو مل گئے۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 63 تا 64 سے انتخاب)