اس سلسلہ میں مختلف نظریے پیش کیے گئے ہیں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ یہ نام "سواستو” یا "سواستوس” سے ماخوذ ہے۔ یہ دونوں نام اس وادی میں سے گزرنے والے دریا کے لیے قدیم سنسکرت اور یونانی زبانوں میں باالترتیب استعمال ہوئے ہیں۔ ایک اور دعویٰ یہ ہے کہ اس نام کا ماخذ لفظ "سویٹا” ہے جو سفید کو کہتے ہیں۔ جس سے مراد دریائے سوات کا صاف و شفاف پانی ہے۔ ایک اور دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ پانی کی بُہتات کی وجہ سے اس وادی کا بیش تر میدانی علاقہ دلدلی ہونے کی وجہ سے چمک دار اور سفید نظر آتا تھا اس لیے اُسے "سوُاَدَت” کہا جاتا تھا جو ہوتے ہوتے "سوات” بن گیا۔
کچھ کا یہ خیال ہے کہ یہاں کی سیہ رنگ زرخیز مٹی پر بہ کثرت اُگے ہوئے جنگلات سے یہ وادی سیاہ نظر آتی تھی جس کی وجہ سے مسلمان حملہ آوروں نے اسے "اسود” کہا جو کہ عربی میں سیاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مرورِ زمانہ کے ساتھ یہ لفظ سواد بن گیا۔ بابر اور مغل دور کے مؤرخ اسے "سواد” کہتے ہیں جو بعد میں سوات بن گیا۔ مغلیہ دور کے مقامی لکھنے والے جیسے خوشحال خان خٹک اسے "سواد” کی جگہ "سوات” کہتے ہیں۔
ایک اور خیال یہ ہے کہ یہ لفظ عربی لفظ "صوت” سے مشتق ہے جس کے معنی آواز اور گونج کے ہیں۔ چوں کہ یہاں گرد و پیش کے اونچے پہاڑوں سے ٹکرا کے آوازیں گونج کی شکل میں لوٹتی ہیں، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ اس خیال کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اُن دیہاتوں میں جو دریا کے کنارے واقع ہیں دریا کے پانی کی آواز رات کو مسلسل سنائی دیتی ہے، بالخصوص موسمِ بہار اور گرما میں جب پانی چڑھتا ہے۔ چاہے اس کی بنیاد کچھ بھی ہو، ریاست کے وجود میں آنے سے پہلے اور بعد کی مقامی تحریروں میں اس کا نام "صوات” ہی لکھا جاتا رہا ہے۔
بہرحال حقیقت یہ ہے کہ سوات پر حملہ کرنے والے مسلمان عرب نہیں تھے اور نہ ہی اُن کی زبان عربی تھی۔ ان کا تعلق افغانستان سے تھا اور ان کی اپنی اپنی زبانیں تھیں، اس لیے اس بات کا امکان نہیں کہ انہوں نے اپنی مفتوحہ سرزمین کو ایک عربی نام دے دیا ہو، جب کہ نہ تو انہیں عربی زبان پر کوئی عبور حاصل تھا اور نہ ہی وہ اُسے اپنی روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے تھے۔ اس نام کا عربی الفاظ "صوت” اور "اسود” سے اشتقاق کا خیال بہت بعد میں پیش کیا گیا۔

ایک اور خیال یہ ہے کہ لفظ "سوات” عربی لفظ "صوت” سے مشتق ہے جس کے معنی آواز اور گونج کے ہیں۔
ان کے علاوہ ایک اور نظریہ کا ذکرعبدالحلیم اثر نے کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ لفظ دو اجزا کا مرکب ہے۔ یعنی "سُوْ” جس کا مطلب ہے "سورج” قدیم سُریانی زبان کی طرزِ ادائیگی کے ساتھ اور اَت، مطلب "زمین”۔ اس طرح لفظ سُواَت کا مطلب سورج سے منسوب سرزمین ہوا۔ سورج سے منسوب سرزمین کے اس نظریہ کی بنیاد یا تو یہ ہے کہ زمانۂ قدیم میں یہاں سورج کی پرستش ہوتی تھی یا یہ کہ یہ وادی کھلی ہونے کی وجہ سے ہروقت دھوپ سے روشن رہتی ہے۔
زمانۂ قدیم کے ماخذ میں اس جگہ کے نام املا کے کچھ فرق کے ساتھ "ادھیانہ” اور "سواستو” ملتے ہیں۔ پہلے میں اس وادی کے قدرتی حسن کی طرف اشارہ ہے جب کہ دوسرے میں یہاں بہنے والے دریا کا حوالہ ہے۔ مزید برآں ویدوں اور پانینی نے جہاں "سواستو” کا ذکر کیا ہے، تو وہاں اُس سے مراد رہنے کی اچھی جگہیں ہیں۔ ہیون سانگ نے دریائے سوات کو "سو۔پو۔فا۔سو۔تو” جو کہ دراصل "سبھا واستو” ہے۔ یعنی آج کا دریائے سوات جسے اریان نے سوستوس کا نام دیا۔ سیموئل بیل نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ اسے ایک باغ کی شکل رکھنے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالرحمان نے البتہ اپنی ایک تازہ تحقیق میں یہ نقطۂ نظر اپنایا ہے کہ "اوڈیز گندھارا میں ایک حکمران قبیلہ کا نام ہے۔ ان کا عہد چار سو قبل مسیح ہے جب کہ سکندر اعظم کے مؤرخین نے "اورا” کے نام سے ان کا پہلی بار ذکر کیا ہے۔ سٹائن نے اُس کی سوات کے اوڈیگرام کے ساتھ بالکل ٹھیک شناخت کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اوڈیز اتنے طاقتور تھے کہ اس پورے علاقہ کو اُن کے نام پر "ادھیانہ” کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔”
ڈاکٹر عبدالرحمان نے بیل کی اس توجیہ کو رد کیا ہے کہ ایک باغ سی شکل ہونے کی وجہ سے اُسے یہ نام دیا گیا ہے، تاہم وہ کہتے ہیں کہ بیل کی تشریح کے وقت اوڈیز کے بارے میں ابھی معلومات حاصل نہیں ہوئی تھیں۔
(کتاب "ریاستِ سوات” از ڈاکٹر سلطانِ روم، صفحہ نمبر 25, 26 ناشر شعیب سنز پبلشرز جی ٹی روڈ سوات سے انتخاب)
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔