کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں، سوات میں ایک ’’شرب گل‘‘ نامی مزاحیہ فن کار ہوا کرتا تھا جو لوگوں کو ہنساتا تھا۔ نامی گرامی لوگوں کو بھری محفل میں مذاق مذاق میں گالیوں سے بھی نوازتا تھا اور لوگ پھر بھی ہنستے تھے۔ کوئی ان کے منھ سے گالی کھا کر بے مزہ نہیں ہوتا تھا۔
قارئین، جب شرب گل پیدا ہوا تو اس کے والدین نے اس کا نام ’’شریف گل‘‘ رکھا۔ ہاں، وہ ماں باپ کے لیے شریف گل تھا، لیکن عوام میں ’’شرب گل‘‘ کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا تھا۔ وہ عوام میں اُس زمانے میں بے حد مقبول تھا۔ وہ شریف گل سے ’’شرب گل‘‘ کیسے بنا اور ریاست سوات کے بانی تک کیسے پہنچا؟ یہ ایک الگ کہانی ہے۔
شرب گل دراصل ایک بنجارہ تھا۔ آج یہاں، تو کل وہاں۔ پرانے زمانے میں تجارتی قافلے ہوا کرتے تھے۔ بڑے بڑے کارواں تجارت کے لئے آیا جایا کرتے تھے۔ یہ موجودہ سڑکیں ابھی نہیں بنی تھیں۔ ہاں ہزاروں سال پرانے زمانے کی شاہراہیں موجود تھیں جن پر تجارتی قافلے بھی گزرتے تھے اور حملہ آور فوجیں بھی۔ جب تجارتی قافلے چلتے چلتے تھک جاتے تھے، تو کسی سرائے میں یا کھلے میدان میں پڑاؤ ڈالتے تھے۔ رات بھر آرام کرتے تھے اور صبحِ صادق سے اپنے سفر کا آغاز کرکے منزلِ مقصود کی جانب چل پڑتے تھے۔ ان قافلوں اور کاروانوں میں ساز و آواز کی محفلیں سجانے والے بھی ہمرکاب ہوا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک قافلے کے ہمراہ شرب گل بھی جایا کرتا تھا۔ یہ تجارتی قافلے میں سوات سے براستہ دیر، باجوڑ چترال جایا کرتا تھا۔ یہاں سے تجارتی سامان وہاں لے جایا کرتا تھا اور وہاں سے پشاور۔ پھر بعد میں وہ پشاور سے واپس سوات آتا تھا اور اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ وقت گزارتا تھا، تھکن دور کرتا تھا اور کچھ عرصہ بعد ایک بار پھر ایک لمبے سفر پر نکل پڑتا تھا۔ شرب گل جس تجارتی قافلے میں شامل ہوتا تھا، تجارت کے علاوہ اُس میں اپنی آواز کا جادو بھی جگاتا تھا۔ ایسے ہی ایک تجارتی قافلے کی ساز و آواز کی محفل سے نوابِ دیر شاہ جہان بھی محظوظ ہوئے۔ اس کے بعد جب بھی یہ کاروان ریاستِ دیر سے گزرتا تھا، تو نوابِ دیر ’’شرب گل‘‘ کی آواز اور موسیقی سے محظوظ ہونے کی خاطر اسے روک لیا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک محفل میں نوابِ دیر شاہجہان نے شرب گل کو نقد انعام سے بھی نوازا۔ انعامی رقم سے شرب گل نے چترال سے واپسی پر پشاور میں اپنے لیے ایک ہارمونیم (باجا) خریدا اور سوات چلا آیا۔ کچھ عرصہ بعد سوات میں فتح پور سے میاندم تک سڑک بن رہی تھی۔ کام کی نگرانی پر بادشاہ صاحب نے اپنے کشر وزیر احمد علی کو مامور کیا تھا۔ شرب گل جس نے دوسری شادی فتح پور سے کی تھی، اس لیے اپنے آبائی علاقے میں سکونت ترک کرکے فتح پور میں رہنے لگا تھا۔ کشر وزیر احمد علی، شرب گل کو محفلِ موسیقی میں اپنے ہاں بلاتا تھا۔ یوں شرب گل کی رسائی بانئی جدید ریاستِ سوات بادشاہ صاحب کے دربار میں ہوئی۔
شرب گل بڑے کام کا آدمی تھا۔ وہ مزاحیہ فطرت کا حامل انسان تھا، باتونی تھا، زیرک تھا اور ہوشیار تھا اور اس کے علاوہ معاملہ فہم اور نڈر بھی تھا۔ اُن دنوں ریاست سوات میں نئے نئے علاقے شامل ہو رہے تھے، برضا و رغبت یا بذریعہ جنگ۔ جنگی مہمات میں شرب گل بھی کشر وزیر احمد علی کے ساتھ جایا کرتا تھا۔ سوات کی افواج مختلف محاذوں پر بر سر پیکار تھیں۔ کسی علاقے کو فتح کرنے سے پہلے وہاں علاقہ کے بڑوں کو جرگے میں بلایا جاتا۔ اُنہیں سمجھایا جاتا۔ اگر جرگہ مان لیتا، تو خون خرابے کی ضرورت نہ آتی۔ بصورت دیگر لڑائی چھڑ جاتی، لیکن بات چیت کے دروازے بند نہیں ہوا کرتے تھے۔ ایسے جرگوں میں شرب گل کا رول کافی اہم ہوا کرتا تھا۔
قارئین، شرب گل ایک عہد کا نام ہے۔ اس حوالہ سے باقی ماندہ معلومات کسی اور تحریر میں شریک کی جائیں گی، اِن شاء اللہ۔

تحریر: فضل محمود روخانؔ