محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہم سے جد ا ہوئے دس برس بیت گئے مگر آج بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ وہ ایک بھی لمحے کے لیے نظروں سے اوجھل نہیں ہوئیں۔ ان کی باتوں اور یادوں کی مہک سے پورا وطن معطر ہے۔ آج بھی پارلیمنٹ کی راہ داریوں میں ان کی آواز گونجتی ہے۔ وہ محض ایک عورت نہیں بلکہ ایک بہادر ماں اور بیٹی تھیں۔ بے جگری کے ساتھ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا مقابلہ کیا، جیل کاٹی، بے وطن ہوئیں، جلسے جلوسوں میں پولیس کے ڈنڈے کھائے، حتیٰ کہ سگے بھائیوں کے جنازے اٹھائے۔ اس کے باوجود ان کے پائے استقامت میں لرزش نہیں آئی۔ گڑھی خدابخش میں تہہ خاک آرام کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کا پرچم اس شان سے اٹھایا کہ دنیا بھر میں جمہوریت اور مزاحمت کی علامت بن گئی۔
بے نظیر بھٹو کی شخصیت اور جدوجہد نے اس ملک کے لاکھوں اور کروڑں شہریوں کو متاثر کیا۔ ان کے سوچنے اور سمجھنے کے انداز کو بدل ڈالا۔ راقم الحروف نے کالج اور یونیورسٹی میں قدم رکھا، تو ملک میں جنرل ضیاء الحق کا توتی بولتا تھا۔ پیپلز پارٹی کو شجرِ ممنوعہ تصور کیا جاتا تھا۔ کالجز اور یونیورسٹیوں میں پیپلز پارٹی کی طلبہ تنظیم موجود ضرور تھی لیکن اس پر ’’دہشت گرد الذوالفقار‘‘ کا لیبل چسپاں ہوچکا تھا۔ افغانستان میں جہاد جاری تھا۔سوویت یونین کے ساتھ جاری نظریاتی اور سیاسی کشمکش کا پوری نوجوان نسل حصہ بن گئی تھی۔ افغان جہادی لیڈر اور کمانڈر ہمارے ہیرو تھے۔ یقین دلایا گیا تھا کہ سوویت یونین کی شکست کی کوکھ سے مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ بحال ہوگی۔ مسلمان ایک بار پھر عالم میں سربلند اور سرخرو ہوں گے۔ بے نظیر بھٹو اور ان کی پارٹی اس منزل کی رکاوٹ سمجھی جاتی تھی۔ ملک کے نامور قلمکار اور دانشور زیڈ اے سلہری، محمدصلاح الدین، مجید نظامی، مجیب الرحمان شامی اورالطاف حسین قریشی پیپلزپارٹی کے خلاف جاری ابلاغی محاذکے سرخیل تھے۔ مقتدر قوتوں کی شہ پرحسین حقانی اس قافلے کے سالار مقرر ہوئے۔ ضیا  الحق بہاولپور میں ایک ہوائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے، تو دائیں بازو کی سیاست کا ایک ہی مرکز و محور تھا کہ بے نظیر کی راہ کھوٹی کرنی ہے۔ انہیں ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کرنا ہے۔ وہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

ضیاء الحق بہاولپور میں ایک ہوائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے، تو دائیں بازو کی سیاست کا ایک ہی مرکز و محور تھا کہ بے نظیر کی راہ کھوٹی کرنی ہے۔ (Photo: dunyanews.tv)

بے نظیر بھٹو کا ذہن اور مزاج جمہوری نہ ہوتا،تو ملک خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا۔ بھائیوں کے اصرار، لیبیا کے صدر کرنل قذافی اور افغان حکومت کی ترغیب کے باوجود انہوں نے ’’الذوالفقار‘‘ کی کارروائیوں کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ ضیا الحق کا مقابلہ میدان سیاست میں کرنے کا فیصلہ کیا نہ کہ توپ وتفنگ سے۔ برسراقتدار آکر نہ صرف پیپلزپارٹی کے مخالفین کو معاف کردیا بلکہ بعض کو اپنی حکومت اور پارٹی میں بھی شامل کر دیا۔انگریزی میں کہاجاتاہے کہ
"Keep your friends close, and your enemies closer.”
یعنی دوستوں کو قریب اور دشمنوں کو قریب تر رکھیں۔ بے نظیر نے اس اصول پر عمل کرتے ہوئے غلام اسحاق خان کو صدر اور صاحبزادہ یعقوب خان کو وزیرخارجہ قبول کرکے طاقتور اسٹبلشمنٹ کو بھی اقتدار میں شراکت دار بنایا۔ ملک کی باگ ڈور ایک منتخب وزیراعظم کے ہاتھ آئی، تو بتدریج جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے لگیں۔ انتقام کی سیاست کو دفن کر دیا گیا لیکن مخالفین کہاں نچلے بیٹھنے والے تھے؟ کون سی گالی ہے جو شیخ رشید احمد نے محترمہ کو نہ دی ہو۔ کوئی اور ہوتا، تو شیخ رشید کو لال حویلی کی دیوار میں چنوا دیتا، مگر پہاڑ جیسا صبر رکھنے والی بے نظیر نے شیخ رشید کی طرح کے لوگوں کو بھی برداشت کیا۔

ون سی گالی ہے جو شیخ رشید احمد نے محترمہ کو نہ دی ہوگی۔ کوئی اور ہوتا، تو شیخ رشید کو لال حویلی کی دیوار میں چنوا دیتا، مگر پہاڑ جیسا صبر رکھنے والی بے نظیر نے شیخ رشید کی طرح کے لوگوں کو بھی برداشت کیا۔ (Photo: Dawn)

زندگی کے آخری سالوں میں وہ مفاہمت اور مکالمے کی بہت بڑی علمبردار بن گئی تھیں۔ مجھے ایسے کئی لوگوں سے طویل گفتگو کا موقع ملا ہے جو بے نظیر کے قلب وذہن کی کایا پلٹنے کے چشم دید گواہ ہیں۔ جلا وطنی کے دوران میں ان کا رجحان مذہب کی طرف بھی ہوگیا تھا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی مذہبی لابی اور گروہوں کے ساتھ بھی رابطہ رکھا اور انہیں قائل کیا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کے قیام کے لیے ان کی مدد کریں۔ مسلم دنیا کے ساتھ مکالمہ کریں اور عالمی سطح پر مفاہمت اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے مل جل کرکام کریں۔
ہر سال امریکی صدر کی طرف سے دیئے گئے دعائیہ ناشتے میں شریک ہوتیں۔ اوسلو میں مقیم سیاستدان سردار علی شاہنواز نے بتایا کہ دعائیہ ناشتے کی ایک تقریب میں وہ بھی بے نظیر کے ساتھ شریک تھے۔ دعا کا وقت آیا، تو بے نظیر بھٹو نے کہا کہ پاکستان کی سلامتی، خوشحالی اور ترقی کی دعا کرائیں۔ بعدازاں انہوں نے سب لوگوں سے کہا کہ وہ آصف علی زرداری کی جیل سے رہائی کی دعا بھی کریں۔ اس موقع پر ا ن کے چہرے پر آنسو کی جھڑی لگی۔ خود زرداری صاحب بتاتے ہیں کہ ٹیلی فون پر بات ہوتی تو وہ کہتی: ’’فون بند کرنے سے پہلے مجھے دعا پڑھنے دیں۔‘‘ دوبئی سے کراچی کے لیے عازمِ سفر ہوئیں، تو ان کے سر پر قران پاک کا سایہ کیاگیا اور بازو پر امام ضامن باندھا گیا۔
ان کی گفتگو اور تقریروں سے جھلکتا تھا کہ وہ ایک بدلی ہوئی شخصیت ہیں جو پاکستان کو زیادہ جمہوری انداز میں چلانے اور ملک کے محروم طبقات کو بااختیار بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ٹھان چکی ہیں۔ اپنے وژن کو اجاگر کرنے کے لیے انہوں نے ’’اسلام، جمہوریت اور مغرب ایک مفاہمت‘‘ کے عنوان سے ایک اعلیٰ پائے کی کتاب لکھی۔ کتاب کے ذریعے اہلِ مغرب کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اسلام برداشت اور رواداری کا مذہب ہے جو بدقسمتی سے انتہاپسند گروہوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔

بے نظیر نے ’’اسلام، جمہوریت اور مغرب ایک مفاہمت‘‘ کے عنوان سے ایک اعلیٰ پائے کی کتاب لکھی۔(Photo: Goodreads)

پاکستان کے ایک نئے تصور کے ساتھ وہ کراچی پہنچی، جہاں لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے منتظر تھے۔ اس لمحے کو دیاکرتے ہوئے بے نظیر لکھتی ہیں: ’’جلا وطنی کے آٹھ انتہائی مشکل اور تنہائی کے برسوں کے بعد میرے قدم پاکستان کی سرزمین کو چھوئے، تو میں اپنے آنسووں پر قابونہ پاسکی۔ میں نے اپنے ہاتھ تعظیم، تشکر اور دعا کے لئے اٹھا دیئے۔ میں پاکستان کی دھرتی پر مبہوت کھڑی تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے کندھوں سے ایک بھاری بوجھ اتر گیا ہو۔ آزادی کا ایک احساس سا تھا۔ بالآخر میں گھر آگئی تھی۔‘‘
بے نظیر بھٹو ہم نہیں رہیں لیکن ان کی پارٹی نے ’’ملک میں مفاہمت کی سیاست‘‘ کا پرچم ابھی تک تھاما ہوا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے جانشین بلاول بھٹو میں اپنی ماں اور نانا کی ترنگ نظرآتی ہے۔ غریبوں او رمحروم طبقات کے لیے درد بھی محسوس ہوتاہے۔ امید ہے کہ وہ پارٹی کو زیادہ جمہوری انداز میں چلائیں گے جس میں عام کارکنوں کے لیے اگلی صفوں تک پہنچنے کی گنجائش پیدا کی جائے گی۔ پسے ہوئے طبقات اور عام لوگوں کو بھی بھٹو کی طرح قومی سیاست میں شریک کار بنائیں گے۔

…………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔