دریائے سوات کے کنارے سرسبز کھیتوں کے بیچ آباد ’’ذرہ خیلہ چنگئی‘‘ تحصیل بریکوٹ کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ گاؤں میں موجود کئی ایک اشیا پر ان کی تاریخی قدر و قیمت کے حوالہ سے بات کی جا سکتی ہے۔ تاہم گاؤں کے وسط میں واقع تقریباً سو سے زائد سال پرانے حجرہ کو کسی بھی طریقہ سے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ حجرہ کئی کمروں پر مشتمل ہے جس کی تعمیر میں سواتی طرزِ معماری کو اپنایا گیا ہے اور یہ اپنی نوعیت کی چند ایک اہم اور تاریخی عمارات میں سے ایک ہے جو ریاست سوات کے قیام سے پہلے تعمیر کی گئی تھی اور اب تک بہتر شکل میں موجود ہے۔ حجرہ کے دروازوں، کھڑکیوں اور ستونوں پر قدیم کنندہ کاری اس وقت کے ہنرمندوں کی محنت کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ پتھر، گارے اور لکٹری کے بہترین امتزاج (حجرہ) کو تعمیر کیے سو سال ہوچکے ہیں لیکن اپنی مظبوط ساخت کی وجہ سے آج تک یہ حجرہ اپنی جگہ قایم ہے۔

گاؤں کے وسط میں واقع تقریباً سو سے زائد سال پرانے حجرہ کو کسی بھی طریقہ سے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ حجرہ کئی کمروں پر مشتمل ہے جس کی تعمیر میں سواتی طرزِ معماری کو اپنایا گیا ہے اور یہ اپنی نوعیت کی چند ایک اہم اور تاریخی عمارات میں سے ایک ہے جو ریاست سوات کے قیام سے پہلے تعمیر کی گئی تھی اور اب تک بہتر شکل میں موجود ہے۔ (فوٹو فضل خالق)

بتایا جاتا ہے کہ ریاست سوات کے پہلے حکمران میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب اپنے دورہ کے موقع پر یہاں قیام کرتے، علاقہ کے عمائدین سے ملاقاتیں کرتے اور ان کے مسائل سنتے تھے۔ حجرہ کا ایک کمرہ ان کے لیے مختص تھا جس کی چھت سے ایک بڑا دستی پنکھا آویزاں تھا۔ جب بادشاہ صاحب آرام کرتے تھے، تو ایک خادم کمرہ کے باہر بیٹھ کر پنکھے کو رسی کے ذریعے ہلاتا رہتا۔ اس سے انداہ ہوتا ہے کہ نہ صرف یہاں کے عوام کے بادشاہِ وقت سے درینہ تعلقات تھے بلکہ یہ علاقہ جغرافیائی لحاظ سے ریاست سوات کے لیے اہمیت کا حامل بھی تھا۔

حجرہ کا ایک کمرہ ان کے لیے مختص تھا جس کی چھت سے ایک بڑا دستی پنکھا آویزاں تھا۔ جب بادشاہ صاحب آرام کرتے تھے، تو ایک خادم کمرہ کے باہر بیٹھ کر پنکھے کو رسی کے ذریعے ہلاتا رہتا۔ (فوٹو بشکریہ ڈان)

مذکورہ عمارت دریائے سوات اور قریبی پہاڑی میں پائے جانے والے پتھروں سے تیار کی گئی ہے جسے علاقہ کے مکین اپنے کاندھوں پہ لاد کر لاتے تھے۔ اس میں بادشاہ صاحب کے علاوہ ان کے وزیر، مشیر اور بیرونِ ملک سے آنے والے مہمان بھی قیام کرتے تھے۔ اگرچہ تاریخی طور پر یہ حجرہ سیاسی مشاورت اور سماجی صلاح و مشورہ کے علاوہ دیگر اجتماعی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے لیکن اس کو دیکھتے ہوئے میرے لیے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں تھا کہ ماضی کے برعکس اس حجرہ میں نہ صرف لوگوں کا اٹھنا بیٹھنا تقریباً موقوف ہوچکا ہے بلکہ اس میں انجام پانے والی سرگرمیاں بھی کم ہوگئی ہیں۔ اس تاریخی ورثہ کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے ’’سوات شرکتی کونسل‘‘ نے اس کی دوبارہ آبادکاری اور محفوظ کرنے کا ایک منصوبہ ’’پرنس کلاز فنڈ، نیدر لینڈ‘‘ کو پیش کیا۔ منصوبہ کا مقصد سوات کے خصوصی طرزِ تعمیر کے حامل اس حجرہ کو نہ صرف دوبارہ اپنی اصل شکل میں بحال کرنا تھا بلکہ اس حجرہ میں استعمال ہونے والی لکڑی پر کندہ کاری کے نمونوں کو طویل مدت کے لیے محفوظ کرنا بھی مقصود تھا۔ حجرہ کی دوبارہ آبادکاری کے اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے سواتی طرزِ تعمیر اور قدیم سواتی کندہ کاری کے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں اور ضرورت کے مطابق پرانی اور بوسیدہ دیواروں اور لکڑی کے بنے ہوئے حصوں کی مرمت کرائی گئی۔ حجرہ کے لان اور اس سے گزرنے والے راستوں کے تزئین و آرائش کا کام سلیقہ مندی سے انجام دیا گیا ہے۔ تکنیکی معاونت فرہم کرنے والی خاتون محترمہ سمیتا احمد (کنزرویشنسٹ) سوات شرکتی کونسل کے اسٹاف اور شوکت اینڈ ایسوسی ایٹس اس غیر معمولی منصوبہ کو کامیابی سے تکمیل تک پہنچانے کی وجہ سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔

’سوات شرکتی کونسل‘‘ نے اس کی دوبارہ آبادکاری اور محفوظ کرنے کا ایک منصوبہ ’’پرنس کلاز فنڈ، نیدر لینڈ‘‘ کو پیش کیا۔ (فوٹو فضل خالق)

ذرہ خیلہ کے عمایدین اور عوام کا خیال ہے کہ حجرہ کی دوبارہ آباد کاری سے یہاں کی رنگینیاں مزید بڑھ جائیں گی اور علاقہ کے تمام لوگ اس حجرہ سے گزرے وقتوں کی طرح ایک بار پھر وابستہ ہوجائیں گے، جہاں پختونوں کی اقدار اور روایات پروان چھڑتی ہیں۔
’’سوات شرکتی کونسل‘‘ نے خیبر پختون خوا میں بالعموم اور ضلع سوات میں بالخصوص پرانی تاریخی اہمیت کی حامل عمارتوں اور دیگر نشانیوں کی بہ حالی اور تحفظ کا ایک غیر معروف مگر انتہائی اہم کام شروع کیا ہے جو ہر لحاظ سے قابلِ تحسین اقدام ہے۔ تاہم تاریخی عمارات کی بہ حالی کے ساتھ ساتھ اگر اس میں ہونے والی ترقیاتی، سماجی، سیاسی اور دیگر سرمیوں کی بہ حالی کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں، تو سوات کے آفت زدہ اور دہشت زدہ انسانوں کی زندگی میں بہار واپس لانے میں کوئی امر مانع نہیں ہوگا۔

…………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔