وہ بالائے قانون اقدام جو ملکی حالات کو معمول پر لانے کے لیے کرکے انہیں آئینی تحفظ فراہم کیا جائے، نظریۂ ضرورت یعنی (Doctrine of necessity) کہلاتے ہیں۔
یہ نظریہ ’’براکٹن‘‘ کی قانونی تحاریر میں ملتا ہے جس کی وکالت دورِ حاضر میں ’’ولیم بلیک سٹون‘‘ نے کی ہے۔ مذکورہ انگریزی اصطلاح کا اُردو ترجمہ ’’عقیدۂ ضرورت‘‘ ہے…… لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
قارئین! 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی قانون ساز اسمبلی کو توڑتے ہوئے اُس وقت کے وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا…… جس کو سپیکر قومی اسمبلی مولوی تمیز الدین نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے اس امر کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلی واپس بحال کردی…… لیکن پاکستان کی چیف کورٹ (موجودہ سپریم کورٹ) کے دوسرے چیف جسٹس ’’جسٹس منیر‘‘ نے گورنر جنرل کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نظریۂ ضرورت کو پیش کیا…… جس کی رو سے ملک کی سلامتی کے لیے آئین کی معطلی ضروری قرار دی گئی۔ اس کے بعد ایوب خان کے فوجی تخت کو بھی اس نظریہ کی رُو سے جایز قرار دیا گیا۔
٭ نظریۂ ضرورت کی ابتدا:۔ چیف جسٹس ’’جسٹس منیر‘‘ نے نظریۂ ضرورت کے تحت گورنر جنرل کے حق میں فیصلہ دے کر نظریۂ ضرورت کی بنیاد رکھی۔ اس کے تحت عدالتِ عظمیٰ نے 1954ء سے 2007ء تک کئی فوجی حکم رانوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔
نظریۂ ضرورت قلم بند کرنے کے چار سال بعد 1958ء میں جنرل ایوب خان نے اسمبلیاں توڑیں اور 1956ء کا آئین معطل کیا۔ سپریم کورٹ نے اس مارشل لا کو نظریۂ ضرورت کے تحت قانونی قرار دیا۔
1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے اسمبلیاں توڑتے ہوئے 73ء کا آئین معطل کیا۔ اس بار بھی سپریم کورٹ نے نظریۂ ضرورت کے تحت مارشل لاء کو قانونی قرار دیا۔ عدالتِ عظمیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جنرل ضیاء الحق نے کہا ہے کہ آئین کو معطل کیا جا رہا ہے نہ کہ کالعدم۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ جنرل ضیا نے یہ قدم ملک و قوم کی بھلائی کے لیے اُٹھایا ہے۔
2000ء میں عدالتِ عظمیٰ نے نہ صرف نظریۂ ضرورت کے تحت نواز شریف حکومت کی برخاستی کو قانونی قرار دیا بلکہ جنرل مشرف کو آئین میں تبدیلی کی بھی اجازت دی۔
قارئین! اسی وجہ سے سپریم کورٹ کو ماضی اور حال میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ مختلف ادوار میں سپریم کورٹ پر تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے الزام لگایا کہ اس نے نظریۂ ضرورت کے تحت فوجی حکم رانوں کو وہ قانونی تحفظ فراہم کیا ہے جس کی ان کو اشد ضرورت تھی۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔