کوہِ نور ہیرے کا نام تو سب نے سنا ہوگا۔ پوری دنیا میں اس ہیرے کے چرچے ہیں۔
کوہِ نور ایک بیش قیمت، بڑا اور اپنی نوعیت کا واحد ہیرا ہے جو اپنے آپ میں ایک الگ تاریخ رکھتا ہے۔ اس کا اصل وزن سینتیس گرام تھا جبکہ موجودہ اکیس گرام ہے۔
اس قیمتی ہیرے کی دریافت کئی صدیوں پہلے ہندوستان میں ہوئی تھی،جس کا سفر ہندوستان سے شروع ہو کر ایران، افغانستان اور پاکستان سے ہوتا ہوا برطانیہ پر اختتام پذیر ہوا۔ اپنے سفر کے دوران میں یہ مختلف بادشاہوں، حاکموں اور مہاراجاؤں کے دربار سے ہوتا ہوا ملکہ برطانیہ کے تاج کی زینت بنا۔
اس کی قیمت کے بارے میں نادر شاہ نے ایک بار کہا تھا کے اسے بیچ کر پوری دنیا کو دو دن کا کھانا کھلایا جا سکتا ہے ۔جبکہ اس کی ایک بیوی سے روایت ہے کہ کوئی طاقتور انسان اپنے چارو اطراف یعنی شمال جنوب، اور مشرق و مغرب کی طرف پوری قوت سے پتھر پھینکے اور پھر اسے آسمان کی طرف قوت سے پھینکے اور اس جگہ کو ہیرے جواہرات سے بھر دے، تب بھی اس ہیرے کی قیمت اس سے زیادہ ہوگی۔

اس قیمتی ہیرے کی دریافت کئی صدیوں پہلے ہندوستان میں ہوئی تھی،جس کا سفر ہندوستان سے شروع ہو کر ایران، افغانستان اور پاکستان سے ہوتا ہوا برطانیہ پر اختتام پذیر ہوا۔ اپنے سفر کے دوران میں یہ مختلف بادشاہوں، حاکموں اور مہاراجاؤں کے دربار سے ہوتا ہوا ملکہ برطانیہ کے تاج کی زینت بنا۔

کوہِ نور پہلے ایک ہندو مہاراجا کے پاس تھا۔ پھر یہ اس وقت مغل بادشاہ بابر کے ہاتھ آیا جب اس نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کر لیا اور بعد میں اسے دوبارہ بادشاہت سونپ دی گئی۔ اس کے بعد یہ نادر شاہ کے ہاتھ لگا۔
اسے دیکھ کر اس کے منھ سے بے اختیار’’ کوہ نور‘‘ لفظ نکلا جس کا مطلب ہے ’’نور کا پہاڑ۔‘‘ اور وہ اسے اپنے ساتھ ایران لے گیا۔
اس کے مرنے کے بعد کوہِ نور افغانستان کے احمد شاہ ابدالی کے قبضے میں آگیا۔ وہاں سے ایک معزول حاکم شاہ شجاع کے ذریعے یہ لاہور آن پہنچا اور پنجاب کے مہاراجا رنجیت سنگھ کے قبضے میں آگیا۔
مہاراجا رنجیت سنگھ کے مرنے کے بعد پنجاب پر انگریز قابض ہوگئے، تو انہوں نے کوہِ نور کو اپنے قبضے میں لے لیا اور ملکہ برطانیہ کے حکم پر اسے ایک بحری جہاز کے ذریعے ہندوستان سے برطانیہ روانہ کیا گیا۔ یہ تقریباً تین مہینے کے طویل سفر کے بعد برطانیہ پہنچ گیا۔
اس ہیرے کو اس قدر حفاظت سے منتقل کیا گیا تھا کہ جہاز کے کپتان کو بھی اس کے بارے میں علم نہ تھا۔ برطانیہ پہنچنے کے بعد رنجیت سنگھ کے تخت نشین بیٹے دلیپ سنگھ کو برطانیہ بلا کر انہی کے ہاتھوں ہیرے کو ملکہ برطانیہ کو سونپ دیا گیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک یہ ان کے قبضے میں ہے۔
کوہِ نور کی ملکیت کے کئی ممالک دعویدار ہیں، جس میں پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل ہیں۔

کوہِ نور کو اس قدر حفاظت سے برطانیہ منتقل کیا گیا تھا کہ جہاز کے کپتان کو بھی اس کے بارے میں علم نہ تھا۔ برطانیہ پہنچنے کے بعد رنجیت سنگھ کے تخت نشین بیٹے دلیپ سنگھ کو برطانیہ بلا کر انہی کے ہاتھوں ہیرے کو ملکہ برطانیہ کو سونپا گیا تھا۔

پاکستان کے علاوہ ہندوستان، افغانستان اور ایران بھی اس کی ملکیت کے دعویدار ہیں اور انھوں نے وقتا ًفوقتاً اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے لیکن سب کو جواب نفی میں ہی ملا ہے۔