جہاں فلک بوس چوٹیاں ہوتی ہیں، وہاں چٹانی جذبے اور مضبوط اعصاب کے مالک لوگ ہی رہا کرتے ہیں۔ ان کے عزائم بلند اور ارادے چٹانوں جیسے سخت ہوتے ہیں۔ قدرتی نظاروں کی گود اور گرتی آب شاروں کا مترنم شور ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے۔ چوٹیاں اپنے سورماؤں کی شجاعت کی داستانیں اپنے سینے میں دفن کیے وقتاً فوقتاً ماضی کے آئینے کو گرد آلود ہونے سے بچاتی ہیں۔ ان چوٹیوں نے یا تو سیکڑوں جنگجوؤں اور لڑاکوؤں کی تیز دھار تلواروں کو کند کیا اور ان کے سروں کو روند کر انہیں پیوندِ خاک کیا، یا پھر وہ جنگ جو اُن چوٹیوں کی کمین گاہوں اور گھاٹیوں میں پھنس کر نکلنے کے لیے ٹھنڈی آہ بھرتے رہے اور جب بڑی مشکل سے بچ نکلنے کا راستہ پایا، تو اسے غنیمت جان کر پھر کبھی پلٹ کر دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ برف پوش اور رومان پرور چوٹیاں ہمیشہ کوہ پیماؤں کے لیے مقصد حیات اور سیاحوں کے لیے فردوس بریں بھی ثابت ہوئی ہیں۔

صوبہ خیبر پختون خوا کے شمالی علاقہ جات قدرتی رعنائیوں سے مالا مال رومان انگیز مقامات رکھتے ہیں۔ ان کے دیکھنے کے اشتیاق میں اندرون ملک اور بیرونی ممالک کے سیاح اور محنت کش سال ہا سال گھڑیاں گنتے ہیں اور سال میں ایک بار ضرور یہاں کا رُخ کرکے اِن وادیوں اور آبشاروں سے بغل گیر ہوتے ہیں۔

علاقہ چغرزئی پختون خوا کے شمالی اونچے گوشوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کے پہاڑ اور درے ہر لحاظ سے منفرد اور زرخیز وجود رکھتے ہیں۔ یہاں ہر صاحب ذوق کی پیاس بجھتی ہے۔ لیکن اِن تمام صفات کے باوجود یہ حکومتی نظروں سے اوجھل اور نظرانداز علاقہ ہے۔ اس کی فلک بوس چوٹیاں سیاحوں کے لیے بہترین اور دل کش پکنک اسپاٹس مہیا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ قیمتی وسائل سے مالا مال یہ چوٹیاں چغرزئی اور اس سے ملحقہ اضلاع کے درمیان شناختی ضامن اور دفاعی فصیل کاکام بھی دیتی ہیں۔

علاقہ چغرزئی پختون خوا کے شمالی اونچے گوشوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کے پہاڑ اور درے ہر لحاظ سے منفرد اور زرخیز وجود رکھتے ہیں۔ یہاں ہر صاحب ذوق کی پیاس بجھتی ہے۔ لیکن اِن تمام صفات کے باوجود یہ حکومتی نظروں سے اوجھل اور نظرانداز علاقہ ہے۔ (فوٹو: ریڈیو بونیر)

مذکورہ بالا چوٹیاں درج ذیل ناموں اور خصوصیات سے پہچانی جاتی ہیں۔
ڈوما:۔ ڈوما چوٹی تپہ مکی خیل میں واقع ہے۔ یہ ایک تاریخی چوٹی ہے۔ قدیم دور میں ڈوما یہاں کا تاتاری النسل حکمران ہو گزرا ہے۔ یہاں آپ کی زندگی کا بہت شان دار دور ہو گزرا ہے۔ بہاکو خان اور دوسرے اکابرین کی مشترکہ جہادی سرگرمیوں کے نتیجے میں ڈوما زندگی کی بازی ہار چکا تھا۔ یہ کافر حکمران تھا اور اس کی شنڈی نامی ایک بیوی تھی۔
لید گٹہ:۔ لید پشتو میں ’’دیکھنے‘‘ کو کہاجاتا ہے۔ یہ بھی ملک خیل کی چوٹی ہے۔ یہاں سے دور دور تک کے علاقوں کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ اس چوٹی پر چڑھنے سے مردان تک کے علاقوں کے نظاروں سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔
لال بیلے:۔ یہ مکی خیل اور شخالہ خیل اور سورے یونین کونسل تینوں کی نمائدہ چوٹی ہے۔
رانڑ سر:۔ یہ چوٹی مخوزئی، سوری اور مدی خیل کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتی ہے۔
بدترینہ:۔ یہ علاقہ سورے اور بہلول خیل شانگلہ کی سرحدی چوٹی ہے۔
سرکوپ:۔ یہ مخوزئی ضلع شانگلہ اور سوری چغرزئی کے درمیان واقع ہے، جوکہ انحٔر میرہ اور چوگا کے درمیان حدفاصل ہے۔
ڈاک سر:۔ یہ بہت مشہور اور پیارا سا ایک گھنا جنگل ہے، جو پرانے زمانے میں مقامی دوشیزاؤں کے سیر سپاٹے اور تفریح کے لیے قدرتی پارک اور ثقافتی زندگی کا مصروف مقام تھا۔ یہ ایک قسم کے مقامی پھل چمیارئی کے لیے بہت مشہور ہے۔ خاص موسم میں یہاں کی جوان لڑکیاں چمیارئی لانے اور جشنِ بہاراں منانے وہاں جاتی تھیں۔ وہاں خوشیاں مناتیں اور روایتی رقص و سرور کا محفل گرم کرتی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔