اگر آپ چکیسر سے بہ راستہ منگا کنڈو مارتونگ کی طرف سفر کریں تو راستہ میں ’’سنڈیا‘‘ نامی ایک چھوٹی سی بستی آتی ہے۔ اس بستی کے لوگ نہایت ملنسار اور سادہ خو ہیں۔ اس بستی سے سوات کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ وابستہ ہے۔ جب میں ڈسپنسر سیجرام کے ساتھ وہاں گیا اور لوگوں سے اس کے بارے میں بات کرنی چاہی، تو وہ خاموش ہوگئے۔ کسی نے بھی میرے سوالوں کا جواب نہیں دیا اور خوف زدہ ہوکر آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔ میں حیران ہوگیا جس سانحہ کے بارے میں، مَیں سوالات کر رہا تھا، وہ قریباً پینتیس چالیس سال پہلے رونما ہوا تھا۔ لیکن ان سادہ دل لوگوں کو اب بھی اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا۔ یہ سانحہ ایک ایسے ملا کے بارے میں تھا جس نے ایک تحریک کی بنیاد رکھی۔ اُس کے گرد بہت سے معتقدین جمع ہوگئے، جن کا اپنا ایک مخصوص حلیہ ہوتا تھا۔ وہ بڑی بڑی داڑھیاں اور کندھوں تک لمبے بال رکھتے تھے۔ ان کے کندھے سے ایک ہلکی چمکتی ہوئی تیز دھار والی کلہاڑی لٹکتی رہتی۔ وہ ملا عدالت لگا کر فیصلے کرتا تھا اور اس طرح ریاست کی مرکزی حکومت کو چیلنج کرتا تھا۔ یہ علاقہ مارتونگ کی حدود تک حاکم چکیسر کے ما تحت تھا۔ جب حاکم مذکور کو اس ملا کے بارے میں اطلاع ملی، تو اُس نے دارالخلافہ سیدوشریف میں وزیرا عظم حضرت علی خان کو رپورٹ دی اور جب انھوں نے جنا ب بادشاہ صاحب کو بتایا، تو وہ جلال میں آگئے اور وزیراعظم کو ہدایت کی کہ فوراً تین چار سو سپاہیوں کا دستہ تیار کرو اور کشر وزیر احمد علی کو (جو سپہ سالار بھی تھے) اسی ملا کی گرفتاری کے لیے بھیج دو۔ ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دو کہ مذکورہ فوجی دستہ کے کمان افسر سے لے کر سپاہی تک کسی کو بھی اس مہم کے ٹارگٹ کے بارے میں پتا نہ چلے۔

یہ سانحہ ایک ایسے ملا کے بارے میں تھا جس نے ایک تحریک کی بنیاد رکھی۔ اُس کے گرد بہت سے معتقدین جمع ہوگئے، جن کا اپنا ایک مخصوص حلیہ ہوتا تھا۔ وہ بڑی بڑی داڑھیاں اور کندھوں تک لمبے بال رکھتے تھے۔ ان کے کندھے سے ایک ہلکی چمکتی ہوئی تیز دھار والی کلہاڑی لٹکتی رہتی۔ وہ ملا عدالت لگا کر فیصلے کرتا تھا اور اس طرح ریاست کی مرکزی حکومت کو چیلنج کرتا تھا۔

یہ سانحہ ایک ایسے ملا کے بارے میں تھا جس نے ایک تحریک کی بنیاد رکھی۔ اُس کے گرد بہت سے معتقدین جمع ہوگئے، جن کا اپنا ایک مخصوص حلیہ ہوتا تھا۔ وہ بڑی بڑی داڑھیاں اور کندھوں تک لمبے بال رکھتے تھے۔ ان کے کندھے سے ایک ہلکی چمکتی ہوئی تیز دھار والی کلہاڑی لٹکتی رہتی۔ وہ ملا عدالت لگا کر فیصلے کرتا تھا اور اس طرح ریاست کی مرکزی حکومت کو چیلنج کرتا تھا۔

کشر وزیر نے فرمان کے ملتے ہی مطلوبہ تعداد میں سپاہی اور اُن کے افسر کا انتخاب کیا۔ میرے والد اگر چہ مرکزی فوجی دفتر میں یا یوں سمجھئے کہ جی ایچ کیو میں تعینات تھے۔ لیکن وزیر نے اُن کو بھی ساتھ لے لیا۔ اس طرح یہ دستہ منگلور سے چکیسر کی طرف بہراستہ امنوئی چل پڑا۔ ایک دن کے مسلسل سفرکے بعد یہ لوگ شام کے قریب چکیسر پہنچے۔ وزیر تو حاکم کی سرکاری رہائش گاہ میں مقیم ہوا اور باقی سپاہی اور افسر مقامی باشندوں کے حجروں میں منتقل ہوگئے۔ صبح چکیسر کے معززین جرگہ کی صورت میں وزیر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جس نے ان لوگوں کے ساتھ بند کمرہ میں مکالمہ کیا۔ پہلے تو سب کو حلف اُٹھوایا کہ اس کمرہ میں کہی گئی باتوں کو باہر افشاں نہ کرنا اور پھر مطلب کی بات زبان پر لایا کہ جناب بادشاہ صاحب ہر قیمت پر ’’سنڈیا ملا‘‘ کو زندہ گرفتار کرکے سیدوشریف منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ لوگ تعاون کریں، تو یہ آپ کے لیے اور ریاست کے استحکام کے لیے بہت اچھا اقدام ہوگا اور بادشاہ صاحب اس عمل کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ بصورت دیگر ہمیں سخت اقدام کرنا ہوں گے۔ معززین علاقہ نے یک زبان ہوکر ایک دو روز کی مہلت مانگ لی۔ وزیر نے اجازت دی اور ساتھ ہی اپنی تنبیہ بھی دہرا دی کہ مجھے جواب اثبات ہی میں چاہئے۔

صبح چکیسر کے معززین جرگہ کی صورت میں وزیر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جس نے ان لوگوں کے ساتھ بند کمرہ میں مکالمہ کیا۔ پہلے تو سب کو حلف اُٹھوایا کہ اس کمرہ میں کہی گئی باتوں کو باہر افشاں نہ کرنا اور پھر مطلب کی بات زبان پر لایا کہ جناب بادشاہ صاحب ہر قیمت پر ’’سنڈیا ملا‘‘ کو زندہ گرفتا ر کرکے سیدوشریف منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ لوگ تعاون کریں، تو یہ آپ کے لیے اور ریاست کے استحکام کے لیے بہت اچھا اقدام ہوگا

دو دِن کے بعد جرگہ نے اُن کو بتایا کہ آج نصف شب کو ملا کو آپ کی تحویل میں دیا جائے گا۔ جرگہ کے جانے کے بعد وزیر نے فوجی افسر کو بلا کر کہا کہ تمام سپاہی تیار رہیں۔ صبح کی اذان سے پہلے ہم واپس روانہ ہوں گے۔ وہ حیران تھا کہ ہم کس لیے آئے تھے اور کیوں بغیر کسی لڑائی کے واپس جارہے ہیں؟ الغرض مرغ کی پہلی اذان ہوتے ہی فوجی سپاہی تحصیل کے گراؤنڈ میں دو قطار بنا کر کھڑے ہوگئے۔ ان دنوں سڑکیں ابھی نہیں بنی تھیں اور یہ ریاست کا ابتدائی زمانہ تھا۔ وزیر ایک گھوڑے پر سوار حاکم کی رہائش گاہ سے برآمد ہوا۔ اُن کے ساتھ ایک دوسرے گھوڑے پر کوئی دوسرا سوار بھی تھا۔ رات بہت تاریک تھی، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہ دونوں سوار آگے بڑھے اور باقی لوگ پیدل اُن کے جلو میں چلنے لگے اور جب روشنی پھیل گئی، تو لوگوں نے دیکھا کہ دوسرے گھوڑے پر ایک کم زور جسم والا آدمی سوار ہے جو بہت بیمار لگ رہا ہے۔ وہ کراہنے لگا، تو وزیر نے پوچھا ملا! کیا بات ہے؟ اُس نے اپنی رانوں کو ہاتھ لگا کر کہا کہ یہ دُکھنے لگے ہیں۔ دراصل اُسے جس گھوڑے پر سوار کرایا گیا تھا اُس پر زین نہیں تھا۔ گھوڑے کی خالی پیٹھ نے اس کے رانوں کو زخمی کیا تھا اور اُس سے خون رسنے لگا تھا۔ وزیر نے فوراً اس کے لیے درخت کی شاخوں سے ایک اسٹریچر سا بنوایا اور اُس کو اس پر لٹاکر دو سپاہیوں کو ہدایت کی کہ اس کو آہستگی سے اٹھا کر چلو۔ جب یہ لوگ کشورہ پہنچے، تو ایک قاصد کو گھوڑے پر آگے بھجوادیا کہ گھڑئی کلے ایکسچینج سے بادشاہ صاحب کو اطلاع دے کر مزید ہدایات حاصل کریں کہ ملا کے ساتھ کیا کرنا ہے؟ بادشاہ صاحب نے ہدایت کی کہ فوجیوں کو اپنے گھروں کو رخصت کرو اور مال کو سیدھے ’’بڑینگل‘‘ پہنچا دو۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ ملا کا انجام کیا ہوا؟ کوئی نہیں جانتا۔ اور اگر جانتا ہے تو بتاتا نہیں۔