معروف ادیب، محقق اور مؤرخ "شیر افضل خان بریکوٹی” سوات کے تاریخی گاؤں بریکوٹ میں 26 اپریل 1926ء کو مہابت خان کے گھر میں پیدا ہوئے۔ 1949ء میں گورنمنٹ مڈل سکول بریکوٹ میں بحیثیتِ مدرس ایک سال خدمات انجام دیں۔ 1951ء میں ودودیہ ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1951ء میں کراچی چلے گئے۔ اردو کالج کراچی سے نے 1956ء میں ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ کراچی میں ڈاکٹر مولوی عبدالحق جیسے اساتذۂ کرام سے کسبِ فیض کیا۔ کراچی ہی میں "مجلسِ پشتون ریاستِ سوات” نامی تنظیم کی سیکرٹری بھی رہے۔
شیر افضل خان بریکوٹی نے راقم الحروف کو بتایا کہ جب وہ والیِ سوات سے ناراض تھے، تو ریاست کی بعض پالیسیوں کے خلاف "امروز” اور "نوائے وقت” اخبارات کو گمنام خطوط بھی لکھتے تھے۔ اپنی کتاب "اقبال میرا ہم سفر” میں لکھتے ہیں: "سوات میں ریاستی زندگی تنگ اور محدود تھی۔ والیِ سوات روشن خیال اور ترقی پسند انسان تھے، لیکن ان کی شخصیت ایک عظیم ڈکٹیٹر کی تھی۔ ہم اہلیانِ سوات پر اُن کے رعب کا یہ حال تھا کہ اقبال کیا پیغمبرِ اسلامؐ کی زندگی پر بولنے اور جلسہ منعقد کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ (صفحہ نمبر 36)
1958ء میں انگلینڈ چلے گئے اور زندگی کا زیادہ حصہ وہاں گزارا ۔
شیر افضل خان بریکوٹی پشتو اور اردو کی کئی کتب کے مصنف ہیں۔ آپ کی تصنیفات کے موضوعات میں زیادہ تر ادبیات اور تاریخ وغیرہ شامل ہیں۔ پشتو میں انہوں نے دبدبۂ خوشحال 1995ء، سخن طراز عبدالحمید مومند 1995ء، زمزمۂ رحمان 1995ء، "عندلیبِ سوات، حافظ الپوری” اور "د پشتو شعر و ادب تاریخ” 1995ء لکھی ہیں۔
پشتو کی مذکورہ کتب پر پشتو کے نامور محققین نے مقدمے لکھے ہیں۔ "دبدبۂ خوشحال” کا مقدمہ پروفیسر ڈاکٹر اقبال نسیم خٹک نے لکھا ہے۔ ڈاکٹر پرویز مہجور خویشگی نے "سخن طراز عبدالحمید مومند” پر مقدمہ لکھا ہے۔ ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک نے "زمزمۂ رحمان” پر مقدمہ لکھا ہے۔ آپ کی کتاب "د پشتو شعر و ادب تاریخ” اباسین ادبی کونسل کی ایوارڈ یافتہ ہے۔ یہ پشاور یونیورسٹی کے ماسٹر پشتو کے نصاب میں بھی شامل ہے۔
اُردو میں انہوں نے درج ذیل کتب لکھی ہیں:
تعارفِ سوات 1995ء، بایزید انصاری: پیر روخان 1995ء، پیر بابا 1999ء، اقبال میرا ہم سفر 2007ء، مولانا اخون درویزہ 2010ء، تاریخِ روزگار 2012ء، حکیم ہمدرد اور تنہا مسافر۔
شیر افضل خان بریکوٹی 31 مارچ 2020ء کو انتقال کرگئے۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
(نوٹ:۔ راقم الحروف نے 18 جنوری 2014ء کو موصوف سے ایک انٹرویو میں ان کی زندگی اور ادبی خدمات کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں، یہ تحریر مذکورہ انٹرویو کی روشنی میں رقم کی گئی ہے، راقم)
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔