چے کوم زائے دَ ازمرو نوکے رجیگی
عاشقان ھلتہ پہ سوکو د بنڑو زی
ملک سعد بھی ایسا شیر دلیر تھا اور اپنے فرض منصبی کا ایسا جاں باز عاشق تھا کہ پلکوں کی نوک پر چل کر شہادت کو گلے لگایا اور حیات جاودانی سے سرفراز ہوا۔ مکار سیاست دانوں کی برسیوں پر زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے جاتے ہیں لیکن قوم کے محافظوں کی برسی خاموشی سے گزر جاتی ہے۔

ذاتی طورپر پولیس کے ساتھ میرا تجربہ اتنا خوش گوار نہیں گزرا ہے۔ بچپن میں، جب منگورہ کی سڑکیں دن کے وقت بھی گاڑیوں سے خالی ہوتی تھیں، ایک دن میں سائیکل پر نشاط چوک کے قریب گزر رہا تھا کہ ایک پولیس نے مجھے رُکنے کا اشارہ کیا۔ میں رُک گیا اور وہ میرے پاس آیا۔ رعب دار آواز میں کہا کہ تم کیوں غلط ہاتھ پر سائیکل چلا رہے ہو۔ نکالو ایک روپیہ۔ میں اُس ظالم کو کیسے سمجھاتا کہ میں نے تو عید کے دن بھی روپیہ کی شکل نہیں دیکھی اور یہ سائیکل بھی میرے دوست کی ہے۔ میرے نصیب اچھے تھے کہ منگورہ کے تھانہ دار عین اُسی وقت آگئے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے بیٹا! تم یہاں کیا کررہے ہو؟ اب سپاہی کو پسینہ آگیا۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے بول پڑا ’’جناب! میں نے اسے روکا تھا اور اس کے والد کی خیریت دریافت کررہا تھا۔‘‘ دراصل تھانہ دار صاحب ہمارے محلہ افسر آباد کے قریب رہتے تھے۔ وہ نہایت خوب صورت اور دبنگ شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے سرخ و سفید چہرے پر بڑی بڑی سیاہ مونچھیں دیدہ زیب لگتی تھیں۔ اُن کا نام عبدالحمید تھا اور اُن کا بیٹا ہمارے ساتھ پڑھتا تھا۔ سپاہی سے نجات ملی تو میں سیدھا گھر آگیا۔

ذاتی طورپر پولیس کے ساتھ میرا تجربہ اتنا خوش گوار نہیں گزرا ہے۔ بچپن میں، جب منگورہ کی سڑکیں دن کے وقت بھی گاڑیوں سے خالی ہوتی تھیں، ایک دن میں سائیکل پر نشاط چوک کے قریب گزر رہا تھا کہ ایک پولیس نے مجھے رُکنے کا اشارہ کیا۔ میں رُک گیا اور وہ میرے پاس آیا۔ رعب دار آواز میں کہا کہ تم کیوں غلط ہاتھ پر سائیکل چلا رہے ہو۔ نکالو ایک روپیہ۔ میں اُس ظالم کو کیسے سمجھاتا کہ میں نے تو عید کے دن بھی روپیہ کی شکل نہیں دیکھی اور یہ سائیکل بھی میرے دوست کی ہے۔ میرے نصیب اچھے تھے کہ منگورہ کے تھانہ دار عین اُسی وقت آگئے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے بیٹا! تم یہاں کیا کررہے ہو؟ اب سپاہی کو پسینہ آگیا۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے بول پڑا ’’جناب! میں نے اسے روکا تھا اور اس کے والد کی خیریت دریافت کررہا تھا۔‘‘

ذاتی طورپر پولیس کے ساتھ میرا تجربہ اتنا خوش گوار نہیں گزرا ہے۔ بچپن میں، جب منگورہ کی سڑکیں دن کے وقت بھی گاڑیوں سے خالی ہوتی تھیں، ایک دن میں سائیکل پر نشاط چوک کے قریب گزر رہا تھا کہ ایک پولیس نے مجھے رُکنے کا اشارہ کیا۔ میں رُک گیا اور وہ میرے پاس آیا۔ رعب دار آواز میں کہا کہ تم کیوں غلط ہاتھ پر سائیکل چلا رہے ہو۔ نکالو ایک روپیہ۔ میں اُس ظالم کو کیسے سمجھاتا کہ میں نے تو عید کے دن بھی روپیہ کی شکل نہیں دیکھی اور یہ سائیکل بھی میرے دوست کی ہے۔ میرے نصیب اچھے تھے کہ منگورہ کے تھانہ دار عین اُسی وقت آگئے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے بیٹا! تم یہاں کیا کررہے ہو؟ اب سپاہی کو پسینہ آگیا۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے بول پڑا ’’جناب! میں نے اسے روکا تھا اور اس کے والد کی خیریت دریافت کررہا تھا۔‘‘

کئی سال بعد ایک بار پھر پولیس سے واسطہ پڑا۔ میں دریائے سوات میں چینلائزیشن کر رہا تھا۔ میرے پاس صرف دو پرانے فی ایٹ بُل ڈوزر تھے۔ ایک نے جواب دے دیا تو میں نے اس کو دریا سے نکلوا کر پولیس لائن کے قریب سڑک کے کنارے رکھ دیا۔ اگلی صبح میں نے دیکھا کہ ایک پولیس سپاہی اس خراب ڈوزر کے پاس کھڑا ہے میں جیپ سے اُتر کر اُس کی طرف گیا، تو اُس نے مجھے اطلاع دی کہ آپ کو لائن آفیسر صاحب بلا رہے ہیں۔ میں اس کے ساتھ ہولیا۔ لائن افسر کے دفتر میں ان سے ملاقات کے لیے داخل ہوا، تو سامنے کرسی پر اپنے ایک کلاس فیلو کو دیکھا۔ ہم کئی سال تک ودودیہ ہائی سکول میں اکٹھے رہے تھے۔ میں بے تکلفی سے اس کا نام لے کر ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھا، تو اُس نے نہایت بے دلی سے میرے بڑھے ہوئے ہاتھ سے اپنی دو انگلیاں مس کیں اور گرج دار آواز میں بولے۔ دیکھو مسٹر! آج شام سے پہلے پہلے اپنے اس منحوس ڈوزر کو یہاں سے ہٹا دو اگر یہ رات کو بھی یہاں پڑا ہوا ملا، تو میں اس میں بم رکھ کر اس کے پرخچے اُڑا دوں گا۔
1994/95کی بات ہے۔ میں چترال سے ٹرانسفر ہوکر بونیر آیا۔ اب کی بار میں کوئی دس سال بعد بونیر آیا تھا۔ سب کچھ بدل گیا تھا۔ وہ سواڑئی بازار جو شام ہوتے ہی ویران ہوجاتا اور جس کی سڑکوں پر گوبھی کے بڑے بڑے ڈھیر پڑے رہتے اور رات بھر آوارہ گدھے ان پر منہ مارتے اور صبح ہم لوگ اسے پکا کر کھاتے، وہ سب کچھ غائب ہوگیا تھا۔ اس جگہ بڑے بڑے پلازے اور ہوٹل بنے ہوئے تھے، جہاں رات کو بھی بھیڑ لگی رہتی۔ ہمارے ایس ڈی او انجینئر شاہ جہان کا تعلق مردان سے تھا۔ بہت ذہین اور محنتی افسر تھے۔ ایک دن انھوں نے بتایا کہ ان کے ایک کلاس میٹ ایس پی کا یہاں تبادلہ ہوگیا ہے اور دو تین ہی دنوں میں یہاں آکر چارج بھی سنبھالنے والے ہیں۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ ایک گریجویٹ انجینئر پولیس میں کیا کررہے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ہم دونوں نے اکٹھے تعلیم مکمل کی۔ دونوں ہی نے ڈیپارٹمنٹ ساتھ جائن کی۔ لیکن کچھ عرصہ بعد انھوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا۔ سی اینڈ ڈبلیو کی نوکری چھوڑ دی اور پولیس سروس میں اے ایس پی کی حیثیت سے شامل ہوگئے۔ بہت جلد ہی پروموشن ملی اور اس وقت ایس ایس پی ہیں۔ آخر کار ہماری اُن سے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ شاہ جہان خان اوروہ دیر تک گپ شپ لگاتے رہے۔ پھر ہم اُن سے رخصت ہوگئے۔

ہمارے ایس ڈی او انجینئر شاہ جہان کا تعلق مردان سے تھا۔ بہت ذہین اور محنتی افسر تھے۔ ایک دن انھوں نے بتایا کہ ان کے ایک کلاس میٹ ایس پی کا یہاں تبادلہ ہوگیا ہے اور دو تین ہی دنوں میں یہاں آکر چارج بھی سنبھالنے والے ہیں۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ ایک گریجویٹ انجینئر پولیس میں کیا کررہے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ہم دونوں نے اکٹھے تعلیم مکمل کی۔ دونوں ہی نے ڈیپارٹمنٹ ساتھ جائن کی۔ لیکن کچھ عرصہ بعد انھوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا۔ سی اینڈ ڈبلیو کی نوکری چھوڑ دی اور پولیس سروس میں اے ایس پی کی حیثیت سے شامل ہوگئے۔ بہت جلد ہی پروموشن ملی اور اس وقت ایس ایس پی ہیں۔

ہمارے ایس ڈی او انجینئر شاہ جہان کا تعلق مردان سے تھا۔ بہت ذہین اور محنتی افسر تھے۔ ایک دن انھوں نے بتایا کہ ان کے ایک کلاس میٹ ایس پی کا یہاں تبادلہ ہوگیا ہے اور دو تین ہی دنوں میں یہاں آکر چارج بھی سنبھالنے والے ہیں۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ ایک گریجویٹ انجینئر پولیس میں کیا کررہے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ہم دونوں نے اکٹھے تعلیم مکمل کی۔ دونوں ہی نے ڈیپارٹمنٹ ساتھ جائن کی۔ لیکن کچھ عرصہ بعد انھوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا۔ سی اینڈ ڈبلیو کی نوکری چھوڑ دی اور پولیس سروس میں اے ایس پی کی حیثیت سے شامل ہوگئے۔ بہت جلد ہی پروموشن ملی اور اس وقت ایس ایس پی ہیں۔

یہ تھی ملک سعد سے ہماری پہلی ملاقات۔ اس کے بعد مختلف تقاریب میں اور سرکاری معمولات کے سلسلہ میں ان سے ملنے کی سعادت حاصل ہوتی رہی۔ ان کی شہرت جس طرح کی تھی ہم نے اُن کو اس سے بڑھ کر پایا۔ نہایت مستعد، سخت گیر اور سماج دشمن عناصر کے لیے قہر آسمانی۔ عام زندگی میں انتہائی دیانت دار، صاف گو اور ایمان دار۔ یورپ و برطانیہ کے جس قسم کے پولیس افسر کے بارے میں ہم سنتے آئے تھے، وہ ان خوبیوں کا مجموعہ تھے۔ مختصر ترین وقت میں انھوں نے ضلع بونیر کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ بدمعاشوں اور اُٹھائی گیروں کا خاتمہ ہوگیا۔ بڑے بڑے خوانین اور ان کے سرکش صاحب زادوں کو لگام ڈال کر قابو میں کیا۔ وہ نہایت بے خوف اور نڈر تھے۔ ایک دن شاہ جہان خان نے میری موجودگی میں ان سے کہا ’’ملکو! بہت تیز جارہے ہو۔ کہیں اپنی جان سے ہی ہاتھ نہ دھو بیٹھو۔‘‘ شاہ جہان خان ان کو بے تکلفی سے ’’ملکو‘‘ کہتے تھے اور چند سال بعد جب میں نے ان کی شہادت کی خبر سنی تو مجھے شاہ جہان خان کے کہے ہوئے الفاظ یاد آگئے۔ واقعی وہ بہت تیز جارہے تھے اور کسی خطرہ کی پروا کیے بغیر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ وہ دنیاوی لالچ سے مبرا تھے۔ وہ اس صوبہ کے لیے باعث صدا فتخار تھے۔ افسوس ہم نے ان کی کماحقہ قدر نہ کی اورنہ ان کی قربانیوں کا اعتراف کیا۔

ملک سعد خان

مختصر ترین وقت میں انھوں نے ضلع بونیر کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ بدمعاشوں اور اُٹھائی گیروں کا خاتمہ ہوگیا۔ بڑے بڑے خوانین اور ان کے سرکش صاحب زادوں کو لگام ڈال کر قابو میں کیا۔ وہ نہایت بے خوف اور نڈر تھے۔ ایک دن شاہ جہان خان نے میری موجودگی میں ان سے کہا ’’ملکو! بہت تیز جارہے ہو۔ کہیں اپنی جان سے ہی ہاتھ نہ دھو بیٹھو۔‘‘ شاہ جہان خان ان کو بے تکلفی سے ’’ملکو‘‘ کہتے تھے اور چند سال بعد جب میں نے ان کی شہادت کی خبر سنی تو مجھے شاہ جہان خان کے کہے ہوئے الفاظ یاد آگئے۔

جب ان کا تبادلہ ہوگیا تو میں اور شاہ جہان خان ان سے ملنے گئے۔ ایس ڈی او صاحب نے ان سے کہا ’’ملکو! سامان کے لیے ٹرک بھجوادوں۔‘‘ انھوں نے ہنستے ہوئے میز پر پڑے ایک سوٹ کیس اور بریف کیس کی طرف اشارہ کیاکہ شاہ جہان! یہ میرا کل اثاثہ ہیں۔ میں اسے خود ہی اٹھاکر گاڑی میں رکھوں گا۔ چلیں اب رخصت ہوجائیں۔ میرا بس چلتا تو میں ان کی قبر پہ ایک کتبہ لگاتا جس پر یہ شعر کندہ ہوتا ۔
زمین کے اندر بھی روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے