شاہی سڑک کی ذمے داری ملک اکوڑ خان کے حوالہ کرنے، پٹھانوں میں پھوٹ ڈالنے اور اُن کو یوسف زیٔ کے خلاف اعتماد میں لینے کے بعد یوسف زیٔ کی سرکوبی کی مہم پر زین خان کوکا (اکبر کا رضاعی بھائی ) کو مقرر کیا۔ وہ بغیر کسی رکاؤٹ کے باجوڑ پہنچا، لیکن وادیٔ سوات میں داخل ہونے کے لیے اُسے مزید کمک کی ضرورت پیش آئی۔

شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر

اکبر نے مزید دو دستے بیربل اور ابولفتح کی سرکردگی میں بھیجے۔ یہ دونوں اُجڈ تھے اور انھیں جنگی شدبد نہیں تھی، لیکن دونوں بادشاہ کے خوشامدی اور درباری شعراء تھے جب کہ ان کے مقابلے میں زین خان تجربہ کار منجھا ہوا جنگ جو اور قابل کمانڈر تھا، یوں تینوں دستے بہ مقام چکدرہ آملے۔

اکبر نے مزید دو دستے بیربل اور ابولفتح کی سرکردگی میں بھیجے۔ یہ دونوں اُجڈ تھے اور انھیں جنگی شدبد نہیں تھی، لیکن دونوں بادشاہ کے خوشامدی اور درباری شعراء تھے جب کہ ان کے مقابلے میں زین خان تجربہ کار منجھا ہوا جنگ جو اور قابل کمانڈر تھا، یوں تینوں دستے بہ مقام چکدرہ آملے۔ آپس میں حکمت عملی طے کی گئی، لیکن زین خان کی دانش مندانہ حکمت عملی کو رد کیا گیا، جس کے تحت اس نے ہدایت کی تھی کہ آپ دونوں آگے پیش قدمی کرکے بونیر میں اپنا کیمپ لگائیں اور میں پیچھے سے حفاظتی ذمے داری سنبھالتے ہوئے پیش قدمی کروں گا یا پھر مجھے ہی آگے بڑھنے کی اجازت دی جائے۔ آپ پیچھے سے حفاظتی دستے کے فرائض نبھائیں۔

 بیربل اکبر کے چہیتے اور نور تن ہونے کی وجہ سے ہمیشہ دربار کی زندگی میں ناز و نعم کے عادی تھے۔ میدان جنگ کا منظر انھوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا اور اب انھیں ایک ایسے مہم پر روانہ ہونا اور ایک ایسی قوم سے نبردآزما ہونا تھا، جس نے محاذ آرائیوں اور مبارزات کے علاوہ آرام و چین اور ناز و نعم کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔


بیربل اکبر کے چہیتے اور نور تن ہونے کی وجہ سے ہمیشہ دربار کی زندگی میں ناز و نعم کے عادی تھے۔ میدان جنگ کا منظر انھوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا اور اب انھیں ایک ایسے مہم پر روانہ ہونا اور ایک ایسی قوم سے نبردآزما ہونا تھا، جس نے محاذ آرائیوں اور مبارزات کے علاوہ آرام و چین اور ناز و نعم کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔

بیربل اکبر کے چہیتے اور نور تن ہونے کی وجہ سے ہمیشہ دربار کی زندگی میں ناز و نعم کے عادی تھے۔ میدان جنگ کا منظر انھوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا اور اب انھیں ایک ایسے مہم پر روانہ ہونا اور ایک ایسی قوم سے نبردآزما ہونا تھا، جس نے محاذ آرائیوں اور مبارزات کے علاوہ آرام و چین اور ناز و نعم کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اور ان کا بچپن، سن بلوغت اور سن ضعیفی عمر کا ہر حصہ مسلسل جنگوں کی نذر ہوچکا تھا۔ آرام سے بیٹھنا ان کی نظر میں معیوب اور کاہلی کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ چناں چہ بیر بل اور ابو الفتح ساتھ ساتھ چلنے پر بضد تھے۔ زین خان کو مجبوراً اُن کی تجویز سے اتفاق کرنا پڑا۔ بیربل پہلے، ابولفتح درمیان اور زین خان کو آخری دستے کی ذمے داری سونپی گئی۔ درہ کڑاکڑ پہنچے، تویہاں اُن کی تاک میں گھات لگائے مختلف گھاٹیوں اور اُوٹ سے اچانک یوسف زیٔ اپنی روایتی اور قبائلی ساخت کے ہتھیاروں سے حملہ آور ہوئے اور بہت سوں کے سر قلم کردیے۔ بیسیوں لاشیں چھوڑ نے کے بعد باقی فوج میدانی علاقے لیگانڑی میں اتر گئی اور تور ورسک کے قریب پڑاؤ ڈال دیا۔ (شائد اُس نے گاؤں کوھی میں پڑاؤ ڈالا ہو، کیوں کہ یہ فلک بوس بلند و بالا تنگ پہاڑوں کے درمیان بستی ہے، جو ہر طرح سے محفوظ اور مستحکم قلعہ نما فوجی چھاؤنی کی تمام لوازمات پوری کرتی ہے۔ یہ بستی یہاں موجود بڑے کنویں کی وجہ سے ’’کوھے گاؤں‘‘ پکارا جاتا ہے، لیکن کوھے گاؤں میں موجود کنویں کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ اکبر بادشاہ نے بنوایا تھا، جو کہ بالکل غلط بات ہے۔ یہ کنواں اکبر سے بھی پہلے کنشک کے دور کا معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ کنشک کے زرعی اصلاحات اور کنویں مشہور ہیں اور پھر اکبر کی فوج کا قیام یہاں عارضی طور پر تھا جب کہ اس طرح کا کنواں بنانا مہینوں کا کام ہے۔

درہ کڑاکڑ پہنچے، تویہاں اُن کی تاک میں گھات لگائے مختلف گھاٹیوں اور اُوٹ سے اچانک یوسف زیٔ اپنی روایتی اور قبائلی ساخت کے ہتھیاروں سے حملہ آور ہوئے اور بہت سوں کے سر قلم کردیے۔ بیسیوں لاشیں چھوڑ نے کے بعد باقی فوج میدانی علاقے لیگانڑی میں اتر گئی اور تور ورسک کے قریب پڑاؤ ڈال دیا۔

اکبر کی فوج درہ کڑاکڑ پہنچی، تو یہاں کی تاک میں گھات لگائے مختلف گھاٹیوں اور اُوٹ سے اچانک یوسف زیٔ اپنی روایتی اور قبائلی ساخت کے ہتھیاروں سے حملہ آور ہوئے اور بہت سوں کے سر قلم کردیے۔ بیسیوں لاشیں چھوڑ نے کے بعد باقی فوج میدانی علاقے لیگانڑی میں اتر گئی اور تور ورسک کے قریب پڑاؤ ڈال دیا۔

زین خان نے یہاں چند دن ٹھہرنے کے لیے کہا، تاکہ قبائلی لشکر رسد کی کمی کے مسئلے سے دوچار ہوکر منتشر ہوجائے اور آسانی سے علاقے کو فتح کیا جائے، لیکن بیربل اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹا رہا۔ پیش قدمی میں بہتری سمجھی اور وہاں سے مختلف دیہاتوں ایلئی، انغا پور اور کڑپہ سے ہوتے ہوئے جنوبی جانب ایک کھلے میدان میں ڈیرا ڈال دیا۔ یوسف زیٔ کا لشکر پہلے ہی سے نویکلے نامی گاؤں سے کچھ فاصلے پر واقع ملندری کی چوٹیوں پر تاک میں بیٹھا ہوا تھا۔ جوں ہی مغل فوج نے پیش قدمی کی، تو لشکر اُن پر ہر طرف سے تیر اور پتھر برسانے لگا۔ اس اچانک حملے سے مغل فوج میں بھگدڑ مچ گئی اور ان کے اوسان خطا ہوئے۔ سخت و حشت زدہ ہوکر مغل فوج دیو قامت اور سنگلاخ چٹانوں اور تنگ و تاریک دروں میں منتشر ہوگئی۔ ان کی لاشیں لوتھڑوں میں تبدیل ہوگئیں۔ بیربل بھی اس بھگدڑ اور افراتفری کے عالم میں غائب ہوا۔ زین خان ایک جھاڑی میں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔ ابوالفتح کی لشکر آنے سے اُس کے دم میں دم آیا، لیکن پختونوں کے فولادی عزائم اور دلیرانہ حملوں نے انھیں مزید سنبھلنے کا موقعہ نہیں دیا اور انھوں نے اُن کا ہر حال میں تعاقب کیا۔ آخری رات کی تاریکی میں ابولفتح اور زین خان انتہائی تأسف اور پریشانی کی حالت میں جان بچانے میں کامیاب ہوئے اور اس عظیم فوج کے لیے درہ ملندری کی گھاٹیاں، درے، چٹان اور خاردار جھاڑیاں دائمی مسکن بن گئیں۔ راستے کی ناواقفیت، جنگی تربیت کا فقدان اور اکبر کے لاڈلوں کی ہٹ دھرمی اور سب سے بڑھ کر یوسف زوؤں کی بہادرانہ صلاحیتوں کی بدولت انھیں بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بیربل کی موت نے اکبر کو صدمہ سے نڈھال کر دیا تھا۔ بعد میں تین دن تک سوگ منایا گیا۔ اسے یوسف زیٔ کی طاقت کا پتا چلا۔ بیربل کی موت پر اکبر نے ابوالفتح اور زین خان کو دو دن تک ملاقات کی اجازت بھی نہیں دی۔روایت ہے کہ اس موقع پر ملندری میں اتنا خون بہہ گیا تھا کہ اس پر خون کی ندی کا گمان ہوتا تھا۔ اس دن گویا وادی نے سرخ خلعت پہن رکھی تھی۔ ملندری میں جہاں بیربل کی موت واقع ہوئی تھی، وہ جگہ آج بھی بیربل درہ کے نام سے یاد کی جاتی ہے، جو کہ مغل خاندان کو بار بار اپنی ہزیمت اور پشتون قوم کی عظمت اور آزاد منشی کی یاد دلاتی ہے۔

بیربل کی موت نے اکبر کو صدمہ سے نڈھال کر دیا تھا۔ بعد میں تین دن تک سوگ منایا گیا۔ اسے یوسف زیٔ کی طاقت کا پتا چلا۔ بیربل کی موت پر اکبر نے ابوالفتح اور زین خان کو دو دن تک ملاقات کی اجازت بھی نہیں دی۔

بیربل کی موت نے اکبر کو صدمہ سے نڈھال کر دیا تھا۔ بعد میں تین دن تک سوگ منایا گیا۔ اسے یوسف زیٔ کی طاقت کا پتا چلا۔ بیربل کی موت پر اکبر نے ابوالفتح اور زین خان کو دو دن تک ملاقات کی اجازت بھی نہیں دی۔

اس جنگ میں مغل فوج کی ہلاکت کے بارے میں محمد پرویش شاہین لکھتے ہیں: ’’مغل اور پشتون کے درمیان خون ریز اور بڑی جنگ سوات کی دھرتی پر لڑی گئی۔ کون سی جنگ؟ وہ جنگ جس میں باون ہزار مغل فوج کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔‘‘