ہندی زبان کا ’’پنگھٹ‘‘ گودر کے ہم معنی لفظ ہے، جس کا مطلب پانی بھرنے کا مقام، کنواں یا بہتے پانی کا کنارا ہے، جسے گھاٹ بھی کہتے ہیں۔ یعنی وہ جگہ جہاں لوگ نہاتے دھوتے یا کشتی میں چڑھتے اُترتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ چشمہ، نہر یا دریا کا وہ کنارا جہاں سے لوگ پانی لاتے ہیں، دریا پھیرتے ہیں اور کشتی بان کشتی روانہ کرتے ہیں۔ چوں کہ روزِ اول سے انسان چشموں، ندیوں، نہروں اور دریاؤں کا پانی استعمال کرتا چلا آیا ہے۔ اس لیے روئے زمین کے ہر کونے کا انسان گودر سے کسی نہ کسی طرح آشنا ہوگا۔ پشتون سماج نے اسے ثقافت کا حصہ بنایا ہے۔ یہاں گودر اگر پانی بھرنے کا چشمہ ہے، تو کپڑے دھونے کا گھاٹ بھی ہے۔ ’’جالہ وان‘‘ کا اڈّا ہے، تو مسافر کی آرام گاہ بھی ہے۔ پشتو زبان کا روزمرہ ’’رَو گودر سمول‘‘ یعنی سیدھا راستہ چننا اور محاورہ ’’بے گودرہ ورگڈیدل‘‘ اس سے بنے ہیں۔ لیکن اس کی شہرت کی اصل وجہ رومانیت ہے، جبھی تو یہ جوانوں کے ارمانوں کا مسکن ہے۔ پشتو شاعری خاص کر رومانی گیت اس کے بغیر بے معنی ہیں۔ ان چند گیتوں سے اندازہ لگائیں۔
جینکئ اوبو لہ زینہ
د بنگلی د سر ہلکہ گولئ پہ وار کڑہ
جینکئ ڈلے ڈلے راغلے
جان وڑے لیلو مازیگر دے
منگی راوخلئ زئ چی بر گودر لہ زونہ
اور ایک گیت یہ کہ
د منگی غاڑہ ئی شنہ لمن ئی سپینہ کنہ
بل پہ غاڑہ ئی زنگیگی تاویزونہ کنہ، د منگی
منگے (مٹکا) اور گودر (پنگھٹ) لازم و ملزوم تھے۔ اس کے ساتھ کسی دوشیزہ کا ذکر آتا، تو عاشقانہ مزاج گویا دھمال پر مجبور ہوجاتا۔ اس لیے تو جوان گاتے گنگناتے دور سے گودر کا نظارہ کرتے یا کسی پوشیدہ مقام سے چپکے چپکے راہ تکتے تھے۔ علی الصباح، عصر اور عشا کے اوقات میں گودر کا میلہ سجتاتھا، لیکن عام طور پر عصر کا وقت زیادہ مشہور ہے۔ جوان بے تابی سے ان اوقات کا انتظار کرتے تھے۔ البتہ عشا کا وقت زیادہ خطرناک ہوتا تھا۔ جس میں ملن کا امکان تو ہوتا تھا، ساتھ ہی بھاگنے والوں کا نقطۂ آغاز اس وقت گودر سے ہوتا تھا، جس میں ایک لڑکی مٹکا پھینک کر لڑکے کے ساتھ نودو گیارہ ہوجاتی، مگر ایسے واقعات بہت کم رونما ہوتے تھے۔ کیوں کہ بڑی عمر کی خواتین بھی ساتھ پانی بھرنے جاتی تھیں۔ عورتوں کے اس میلے میں کوئی اپنے ساجن کا انتظار کرتا تھا، تو کوئی اپنے گھر کی کہانی سناتا پایا جاتا۔ ایک دوسرے پر پانی پھینکا جاتا اور ایک دوسرے کو چھیڑا جاتا، جس سے کبھی کبھار جنگ بھی چڑ جاتی۔ مثلاً یہ پشتو ٹپہ ملاحظہ ہو
پہ گودر جنگ د جینکو دے
منگی ئی مات کڑل پہ غڑو ویشتل کوینہ
اسی لیے تو حکیم اللہ بریالی نے شعری مجموعے کا نام ’’جنگ ئی د گودر غیگے لہ وڑیدے‘‘ رکھا ہے۔
یہ تماشا ممکن تھا۔ کیوں کہ پشتون معاشرے نے گودر میں خواتین کے لیے اوقات مقرر کیے تھے۔ ان اوقات میں کسی کا مجال نہ تھا کہ گودر جانے یا گودر جانے والے راستے کے آس پاس بھٹکنے کی کوشش بھی کرتا۔ اور تو اور ہم نے یہاں تک سنا ہے کہ خواتین ندی، دریا یا چشمے کے قریب بنے غسل خانے میں ان مقرر اوقات میں نہاتے تھے۔
شہباز محمد، میجر راورٹی کی 1858ء کی ایک رپورٹ کا ترجمہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’گاؤں پیتئی ( فتح پور) میں دریا کے کنارے پتھر اور گارے کے غسل خانے (چار چوبئی) بنائے گئے ہیں، جس میں صبح سویرے عورتیں نہاتی ہیں۔ اس وقت مرد وہاں نہیں آسکتے۔‘‘
شاید یہ ٹپہ اس لیے مشہور ہے کہ
پہ گودر ناستہ زلفے وینزی
پہ نری باد ئی وچوی جانان لہ زینہ
تاریخ گواہ ہے کہ اگر کسی شخص نے گودر پر بے وقوفی کی ہے، تو گاؤں والوں نے اس کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے۔ ایسا عمل اکثر بڑی جنگوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے فوجیوں نے کنڑ کے مقام پر ایک گودر میں لڑکیوں کو چھیڑا، تو مقامی لوگوں نے انہیں مار مار کر ان کا کچومر نکال دیا، جس سے چند سپاہی موقع پر ہلاک بھی ہوئے۔ اس پر اورنگ زیب طیش میں آگئے۔ اپنے سپاہیوں کا بدلہ لینے کی خاطر پشتون قبائل پر حملہ آور ہوئے۔ دریں اثنا ایمل خان مہمند نے مختلف قبائل اکھٹے کیے اور مغل فوج کو شکستِ فاش دی۔ ان کے ہزاروں سپاہی مارے گئے۔ پشاور کے گورنر امین خان کی بیوی چند خواتین سمیت ایمل خان مہمند کے ہاتھ لگ گئی، جنہیں بعد میں تاوانِ جنگ لے کر چھوڑنا پڑا۔ یاد رہے کہ خوشحال خان خٹک اس جنگ میں اورنگ زیب کے ساتھ تھے۔ بعد کے زمانہ میں اُنہیں کہنا پڑا کہ جنگ میں مغل کا ساتھ دے رہا تھا، لیکن دل میں پشتونوں کی فتح کے لیے دعا مانگ رہا تھا۔
قارئین، گودر اور درخت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جہاں جہاں چشمہ ہوا کرتا تھا، وہاں وہاں چنار کا درخت بھی موجود ہوتا تھا۔ بغیر درخت کے گودر بہت کم تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب گھر بار کے اکثر کام خواتین کیا کرتی تھیں۔ ٹیوب ویل اور نلکے کا رواج نہ تھا۔ آبادی کم تھی اور معاشرہ بالکل زرعی تھا۔ جوں ہی معاشرہ بدلنے لگا، ساتھ چیزیں بھی بدلنے لگیں، جس سے میدانی گاوؤں اور قصبوں میں گودر کا رواج ختم ہوگیا۔ لیکن اب بھی پانی کی قلت والے علاقوں میں عورتیں پانی بھرنے جاتی ہیں۔ یعنی گودر اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے ۔ تا ہم جو بات پرانے گودر میں تھی، اب وہ نہیں رہی۔ نہ تو کسی کے پاس وقت ہے کہ باڑوں کے پیچھے بیٹھے، کسی گلی کے نکڑ سے تاک لگائے یا گودر کے آس پاس کی کھیتوں میں گشت لگائے۔ نہ سکھیاں وہاں بیٹھ کر گپیں مارتی ہیں اور نہ ان کی شرارتیں ہوتی ہیں۔ بعض چشمے سوکھ گئے ہیں اور نہر بھی پانی بھرنے کے قابل نہیں رہے۔ جاتے جاتے گودر سے متعلق چند ٹپے ملاحظہ کیجیے:
چی مازیگر پری خائستہ کیگی
منگے نارے ورتہ وہی گودر لہ زینہ
گودر لہ زم راپسے راشہ
ما پہ منگی کی پراٹے راوڑی دینہ
چی مازیگر شی منگے واخلہ
زہ لیونے بہ د گودر پہ غاڑہ یمہ

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔