میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب جدید ریاستِ سوات کے بانی تھے۔ آپ 1883ء میں پیدا ہوئے۔ آپ صاحبِ سوات (سیدو بابا) کے پوتے تھے۔ آپ کے والد حضرت اخوند صاحب کے چھوٹے بیٹے میاں گل عبدالخالق تھے اور آپ کی والدہ سابق مہتر چترال امان الملک کی دختر تھیں۔
حضرت اخوند صاحب کی وفات (1877ء) سے بادشاہ صاحب کے آغازِ حکومت (1917ء) تک یعنی (چالیس سال) سوات میں بداَمنی اور خانہ جنگی کا دور دورہ رہا۔ اخوند صاحبِ سوات نے اپنی زندگی میں سوات اور اہلِ سوات کو متحد کرنے اور ان کے مابین چپقلش ختم کرنے کی جو کوششیں کی تھیں، وہ برباد ہو چکی تھیں۔ کئی بار مضبوط حکومت کا قیام عمل میں بھی آیا، مگر بااثر خوانین کی خانہ جنگی نے پھر انتشار پھیلا دیا۔ سوات کے دوسرے حکمران عبدالجبار شاہ کے دور میں جب حالات بالکل خراب ہونے لگے، تو اہلِ سوات نے ان کو معزول کرکے بادشاہ صاحب کو والی تسلیم کرلیا۔ اس وقت سوات کی حدود بھی کم تھیں۔ کالام، کوہستان اور بونیر کے علاقے ریاستِ سوات کی حدود میں شامل نہ تھے۔
دریائے سوات کے پار کے بعض علاقے جو خاص سوات کے حصے تھے، ریاستِ دیر میں شامل تھے۔ بادشاہ صاحب نے ابتدائی استحکام کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ طاقتور نوابِ دیر کو 1919ء میں "ارنائی” کی وادی میں فیصلہ کن شکست دے دی اور ہمیشہ کے لیے دریائے سوات کے دونوں کناروں کے میدان کو، مخالفانہ قبضے سے چھڑا لیا۔ بادشاہ صاحب نے خاص دیر کا ایک بڑا علاقہ بھی اس لڑائی میں فتح کرلیا، مگر بعد میں مستقل حدبندی کے دوران میں دیر کا مفتوحہ علاقہ دیر کو واپس کر دیا گیا۔
بادشاہ صاحب نے اس فتح کے بعد ان خوانین کا مزاج درست کیا جو کسی مستحکم حکومت کے اصول و قوانین ماننے پر آمادہ نہ تھے اور خانہ جنگی کی آگ بھڑکاتے رہتے تھے۔ بعد ازاں بادشاہ صاحب نے ریاستِ سوات کی حدود میں بونیر، کالام اور کوہستان کے علاقے بھی شامل کرلیے اور ریاستِ سوات کی سرحدیں ہر طرف سے محفوظ کرلیں۔
میاں گل عبدالودود بہت نڈر، اسلام پسند، مدبّر اور روشن خیال حکمران تھے۔ انھوں نے ریاستِ سوات کے عوام کی بہبود اور بھلائی کے لیے بے شمار ترقیاتی کام کیے۔ جگہ جگہ سکول کھولے، ہسپتال قائم کیے، سڑکیں بنوائیں، دریاؤں اور ندیوں پر پل بنوائے، نہریں کھدوائیں، جنگلات کی حفاظت کی اور مزید درخت لگوائے۔ تجارتی سرگرمیوں کو وسعت دی، بے روزگاروں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے، لوگوں میں اپنی مدد آپ کا جذبہ پیدا کیا، شرعی قوانین نافذ کیے اور انصاف کے حصول کو بہت آسان بنا دیا۔ غرض انہوں نے سوات کو امن، ترقی اور خوش حالی کا گہوارہ بنا دیا۔
12 دسمبر 1949ء کو بانیِ جدید ریاستِ سوات میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب نے خود حکومت سے کنارہ کشی اختیار کی اور عنانِ سلطنت اپنے ولی عہد شہزادہ میاں گل عبدالحق جہاں زیب کے سپرد کر دی۔ آپ نے اپنی باقی زندگی عوام کی خدمت اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزاری۔ سوات کے اس "مردِ آہن” نے یکم اکتوبر 1971ء میں وفات پائی اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو عقبہ سیدو شریف میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ (فضل ربی راہیؔ کی کتاب "سوات سیاحوں کی جنت” سے انتخاب”)