آفریدیوں کے حوالہ سے کہا جاتا ہے کہ ان کا سلسلۂ نسب عثمان نامی بزرگ سے شروع ہوتا ہے۔ عثمان المعروف آفریدی کے دو بیٹے تھے، جن کے اسمائے گرامی بالترتیب "ماپی” اور "زلنی” تھے۔ "زلنی” کی اولاد زیادہ نہیں تھی، جو کہ اب "بنگش” میں آباد ہے، جب کہ "ماپی” کثیر الاولاد تھا۔ اس کی تین بیویاں تھیں، جن کے نام بالترتیب "ترینہ”، "زرینہ” اور "فاطمہ” تھے۔ آج کل آفریدی قبائل کے آٹھ ذیلی قبیلے ہیں، جو بالترتیب یوں ہیں: ملک دین خیل، قمبر خیل، کوکی خیل، زخہ خیل، اکا خیل، سہ پائی، کمر خیل اور آدم خیل۔
یہ لوگ درۂ خیبر، اخور درہ، کوہاٹ اور تیرا کے علاقوں میں آباد ہیں۔ آفریدیوں کی سرحد شرقاً خٹک، جنوباً اورکزئی اور بنگش، غرباً شنواری اور شمال میں مومند قبائل سے ملتی ہے۔ ان کا علاقہ پشاور میں "کچہ گڑئی” تا "ننگرہار” کے مغربی جنوب کے پہاڑوں تک پھیلا ہوا ہے۔ وادئی تیرا کے بھی اکثر علاقے ان کے تسلط میں ہیں، مگر مومند کے پہاڑوں کے درمیان میں آفریدیوں کا علاقہ "باغ” آتا ہے۔ یہ جگہ "میدان” کے نام سے بھی یاد کی جاتی ہے، جو اپنی منفرد آب و ہوا اور آفریدیوں کا مرکز ہونے کی وجہ سے خاص شہرت رکھتی ہے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آفریدیوں کا قبیلہ چودھویں صدی عیسوی میں یہاں آکر آباد ہوا تھا۔ یونانی مؤرخ "ہیرو ڈوٹس” پختون خوا کی جن چار بڑی قوموں کا ذکر کرتا ہے، ان میں ایک قبیلہ "ایپی ریتی” کے نام سے بھی لکھتا ہے۔ یہ لفظ "فقہ اللغہ” کے تحت لفظ "آفریدی” کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر یہ لفظ آفریدی قبائل کے قدیم ہونے کی ایک سَند ہے۔
مزید اس قبیلے کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ سکندرِ اعظم نے اپنی فوج کا جو دستہ خیبر کے راستے روانہ کیا تھا، تو اس جگہ پر آفریدی قبائل اس سے دست بہ گربیاں ہوئے تھے۔
درۂ خیبر میں رہنے والے قبائل بہادر اور غیرت مند لوگ ہیں۔ مذکورہ درہ، پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک اہم گزرگاہ ہے۔ یہاں 1925ء میں ریلوے لائن بچھائی گئی تھی، جسے انجینئرنگ کا شاہکار کارنامہ گردانا جاتا ہے۔ درۂ خیبر میں جمرود سے طورخم تک ایک پکی سڑک بھی جاتی ہے جس پر ہر قسم کے حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں اور جگہ جگہ فوجی چھاؤنیاں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ پہاڑوں کے گردا گرد یہ خم دار سڑک جمرود سے قلعہ شاگئی اور یہاں سے ہوتے ہوئے علی مسجد سے ملتی ہے۔ یہ مقام سطحِ سمندر سے تین ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ علی مسجد سے آگے یہ سڑک پہاڑوں کے دامن میں گھومتی ہے، جہاں "زخہ خیلو کلی” اور "قلاگانے” کے علاقے ملتے ہیں۔ وہاں سے آگے سڑک نے تھانہ تک رسائی حاصل کی ہے۔
درۂ خیبر ہر دور میں اہم رہا ہے۔ اسی بنا پر یہ اپنے باسیوں کے لیے تاریخی سند رکھتا ہے۔ اس میں آفریدی، شنواری اور شلمانی (جو مومند ہیں) ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں، لیکن ان میں سب سے زورآور آفریدی ہی ہیں۔ تیرا میں باغ مسجد آفریدیوں کا مذہبی اور سیاسی مرکز ہے۔ یہاں پر ان کے باہمی مشورے اور تاریخ ساز فیصلے ہوتے ہیں۔
درۂ خیبر کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی کھدائی سے بدھ مت کے ڈھیر سارے آثار دریافت ہوئے ہیں۔ اس درہ میں آفریدی قبائل کے ساتھ انگریزوں نے کئی بار پنجہ آزمائی کی، مگر وہ ان کو زیر کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔ (م، ج سیال مومند کی تالیف شدہ کتاب "د پختنو قبیلو شجری” ناشر یونیورسٹی بک ایجنسی پشاور، دوسرا ایڈیشن، فروری 2015ء، صفحہ 254 تا 256 کا اردو ترجمہ)

………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔