گرم موسم کے بعد تیز ہواؤں، گہرے بادلوں اور مسلسل بارشوں کا سلسلہ ’’مون سون‘‘ کہلاتا ہے۔ افریقہ کے مشرقی ساحلوں کے قریب خطِ استوا کے آس پاس بحرِ ہند کے اوپر گرمی کی وجہ سے بخارات بننے کا عمل شروع ہوتا ہے اور یہ بخارات بادلوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور مشرق کا رُخ اختیار کرتے ہیں۔ یہ سری لنکا اور جنوبی بھارت پہنچتے ہیں اور پھر مشرق کی طرف نکل جاتے ہیں۔ ان کا کچھ حصہ بھارت کے اوپر برستا ہوا کوہِ ہمالیہ سے آٹکراتا ہے۔ بادلوں کا کچھ حصہ شمال مغرب کی طرف پاکستان کا رُخ کرتا ہے اور 15 جولائی سے مون سون کے بادل لاہور پہنچتے ہیں۔
تقریباً 15 جولائی کو پاکستان میں ساون کی پہلی تاریخ ہوتی ہے۔ بارش سے موسم خوش گوار ہونے کے بعد گرمی کے ستائے افراد کے چہرے کھلکھلا اُٹھتے ہیں اور اکثر لوگ موسم کا لطف لینے کے لیے اپنے گھروالوں کے ساتھ تفریحی مقامات پر گھومنے چلے جاتے ہیں، مگر جہاں یہ موسم خوشیاں لاتا ہے وہیں کئی گھر ان موسلادھار بارشوں سے آنے والے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔
ہر سال کی طرح رواں سال بھی ملک بھر میں مون سون کا آغاز ہوچکا ہے۔ مختلف شہروں میں کہیں ہلکی، کہیں تیز بارشیں جاری ہیں اور محکمۂ موسمیات نے مزید طوفانی بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔ ضروری ہے کہ برسات کے موسم میں شہریوں کو اپنی جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ گھر کی چھتوں پر نکاسیِ آب کا جائزہ لینا چاہیے، تاکہ پانی جمع نہ ہو۔ برساتی نالوں اور تالابوں میں ہرگز نہانا نہیں چاہیے۔ بچوں کو بجلی کی تاروں اور کھمبوں سے دور رکھنا چاہیے۔ زمین پر گری بجلی کی تاروں کو چھونے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔
ماہرینِ صحت کے مطابق برسات کے موسم میں بے شمار وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مون سون میں پیدا ہونے والی بیماریوں میں سیزنل انفلوائنزا (وبائی زکام)، ملیریا، ٹائیفایڈ، ڈینگی بخار، ہیضہ اور ہیپاٹائٹس اے سرفہرست ہیں۔
وبائی زکام (سیزنل انفوائنزا) مون سون کے موسم میں پھیلنے والی عام بیماری ہے۔ انفلوائنزا وائرس ہوا کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے اور ناک، گلے اور پھیپڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ چوں کہ اس کا وائرس کھلی فضا میں موجود ہوتا ہے، اس لیے ایک فرد سے دوسرے میں باآسانی منتقل ہوجاتا ہے۔ اس بیماری کی نشانیوں میں بہتی ہوئی ناک، جسم اور گلے میں شدید درد اور بخار شامل ہیں۔
اس وبائی مرض سے بچنے کے لیے اچھی غذا لینا چاہیے، تاکہ جسم کی قوتِ مدافعت زیادہ مضبوط ہو اور جو اس وائرس کو ختم کرسکے۔
اس کے علاوہ ہیضہ مون سون کے موسم میں پھیلنے والی خطرناک بیماریوں میں سے ایک ہے۔ ہیضہ کچھ خطرناک بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتا ہے جو خراب کھانوں، گلے سڑے پھلوں، گندے پانی اور حفظانِ صحت کی کمی کے باعث پھیلتے ہیں۔
اس کی علامات میں پیچش اور قے آنا شامل ہیں۔ ان کی وجہ سے جسم سے بہت زیادہ پانی ضائع اور پٹھوں میں کھچاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ انسانی جسم میں نمکیات کی کمی ہوجاتی ہے۔
ہیضے کے مریض کو فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ انسانی جسم میں نمکیات کی کمی موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ہیضے کے مریض کو ’’اُوآرایس‘‘ پانی میں گھول کر پلانا چاہیے جو جسم میں پانی کے ساتھ ساتھ نمکیات کا توازن برقرار رکھتا ہے۔ ہیضے سے بچاؤ کے لیے اُبال کر صاف پانی کا استعمال اور حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال رکھناضروری ہے۔
برسات کے موسم میں آلودہ پانی میں پائے جانے والے بیکٹیریا کی وجہ سے ’’ٹائیفائڈ‘‘ کے پھیلنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے جوکہ آلودہ کھانے یا کسی متاثرہ شخص کے فضلے سے پھیلتا ہے۔ اس کی علامات کچھ دنوں تک تیز بخار، پیٹ میں شدید درد، سر درد اور قے آنا ہے۔
اس بیماری کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس کا جراثیم علاج کے بعد بھی پتے میں رہ جاتا ہے۔ اس کی تشخیص خون کے ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔اس سے بچاؤ کے لیے احتیاتی تدابیر میں صاف پانی کا استعمال، اچھے انٹی بیکٹیریا صابن کا استعمال اور بہتر نکاسیِ آب کا انتظام کرنا شامل ہیں۔
اسی طرح برسات کے موسم میں پھیلنے والی بیماریوں میں سے ایک ملیریا ہے جو کہ بارش کے کھڑے پانی میں پیدا ہونے والے مچھروں کی وجہ سے پھیلتی ہے۔ اس کی نشانیوں میں تیز بخار، جسم اور سر درد اور پسینا آنا شامل ہیں۔ اگر اس کا علاج بروقت نہ کیا جائے، تو جگر اور گردوں کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
ملیریا سے بچاؤ کی احتیاتی تدابیر کے لیے مچھر دانی کا استعمال کرناچاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ گھر میں گندے پانی کا ذخیرہ نہ ہو۔
پانی جمع ہونے سے ڈینگی بخار پھیلنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ ڈینگی مچھر صاف پانی میں پیدا ہوتا ہے۔
اس مچھر کی پہچان یہ ہے کہ اس کے جسم پر سفید اور کالی لکیریں ہوتی ہیں اور یہ دوسرے مچھروں سے عموماً بڑا ہوتا ہے۔ یہ صبح اور شام کے وقت کاٹتا ہے۔
ڈینگی بخار کی نشانیوں میں جوڑوں اور پٹھوں میں شدید درد، آنکھوں کے پیچھے درد، سر درد، بخار اور جسم پر سرخ نشانات بننا شامل ہیں۔ گرم موسم میں بارشیں جہاں ہمارے لیے رحمت اور راحت کا سبب بنتی ہیں، وہیں احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی وجہ سے درجِ بالا بیماریوں کی وجہ بھی بن سکتی ہیں۔ لہٰذا مون سون کے موسم کو انجوائے کرنے کے لیے ذیل میں دی جانے والی باتوں کا خاص خیال رکھیں:
ضروری ہے کہ صحت و صفائی کا خاص خیال رکھا جائے۔ خود کو اور گھر کو صاف ستھرا رکھاجائے، تاکہ وبائی امراض کے پھیلاؤ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ممکنہ نقصانات سے بچا جاسکے ۔
دوسری طرف سبھی جانتے ہیں کہ سڑکوں پر پانی اس وقت جمع ہوتا ہے جب سیوریج کا نظام ٹھیک نہ ہو اور سیوریج کا نظام ٹھیک نہ ہونے کی دو بڑی وجوہ ہیں:
٭ ایک یہ کہ نکاسیِ آب کے لیے مختص گندے نالوں کی صفائی کا مناسب انتظام نہیں کیا جاتا، چناں چہ جونہی معمول سے کچھ زیادہ بارش ہو جائے سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔
٭ دوسری وجہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز ہیں جنہیں لوگ استعمال کے بعد اِدھراُدھر پھینک دیتے ہیں اور جو ہوا کے ذریعے یا بارش کے پانی کے ساتھ بہہ کر سیوریج کے نظام میں داخل ہوتے اور اسے بلاک کر دیتے ہیں۔
ضروری ہے کہ مون سون سے قبل گندے نالوں کی صفائی کا اہتمام کیا جائے اور شاپنگ بیگز کی استعمال پر جو پابندی عائد کی گئی ہے، اس پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے، تاکہ کرونا کے بعد مزید وبائی امراض سے بچا جاسکے۔
………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔