بیس فروری 2018ء کو میڈیا کے ایک چینل نے بتایا کہ ہمارے ملک میں اس وقت ایک کروڑ پینتالیس لاکھ یرقان کے مریض موجود ہیں جو دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔ اس طرح دنیا میں صرف دو یا تین ممالک ایسے رہ گئے ہیں جہاں پولیو موجود ہے اور ہمارا ملک اُن میں سے ایک ہے۔ ہم واحد ملک ہیں جہاں پولیو کے علاج کرنے والے افراد کو قتل کیا جاتا ہے۔ ہڈیوں کے امراض، شوگر کا مرض، گردوں کے امراض، ٹی بی اور دل کے امراض، آنکھوں، کان، ناک اور گلے کے امراض میں بھی غالباً ہم دنیا میں ٹاپ پوزیشن پر ہوں گے۔ ڈپریشن اور ذہنی پریشانی کا تو تقریباً ہر شہری مریض اور بلڈ پریشر اس کا حصہ ہے۔
یہ اور دوسرے امراض کے پھیلانے میں سب سے بڑا کردار قوم میں قانون شکن افراد کی زیادہ تعداد کا ہونا ہے۔ رب العالمین نے جب انسان کو پیدا کیا، تو ا پنی اس ذہین مخلوق کو شیاطین (منفی سوچ، منفی قوتوں اور منفی اعمال) سے بچانے کے لیے اپنی ہدایات، اپنے پاکیزہ ترین منتخب بندوں کے ذریعے فراہم کیں۔ ان فرامین کا مکمل اور آخری مجموعہ قرآنِ کریم کی شکل میں انسانوں کے پاس بھیجا، جو آج بھی اُن کے پاس موجود ہے اور بعض افراد اُن سے استفادہ کرتے رہتے ہیں اور اُن پر عمل کرتے رہتے ہیں۔ جو قومیں قرآن کی ہدایات کے مطابق کام کرتی ہیں، وہ فائدے میں رہتی ہیں اور جو من مانیاں کرتی ہیں وہ خسارے میں ہوتی ہیں۔
’’اللہ صاف ستھرے لوگوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ یہ قرآنِ کریم کی اطلاع ہے اب جو لوگ صاف ستھرے ہوں، وہ کبھی بھی اپنے ارد گرد گندگی کو برداشت نہیں کرتے۔ شریعت بات بات پر صفائی کا حکم دیتی ہے۔




’’اللہ صاف ستھرے لوگوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ (القرآن)

ہمارا دین دوسری مخلوقات اور دوسرے انسانوں کو فوائد پہنچانے کے لیے ایثار و قربانی کا وسیع پیمانے پر درس دیتا ہے، لیکن ہم لوگوں نے ان اعمال کو اپنایا ہوا ہے جن میں ہمارا اپنا فائدہ ہو اور اس سوچ میں ہم بہت گہرے چلے گئے۔ اتنے گہرے کہ ہم نے تقریباً حقوق العباد کا انکار کردیا ہے۔ اگر ہم دیانت داری کے ساتھ اپنے ارد گرد دیکھیں، تو ہم خود غرضیوں کے جوہڑ میں ڈوب گئے ہیں۔ قرآن و سنت آفاقی تعلیمات اور ہدایات فراہم کرتے ہیں۔ آفاقی تعلیمات و ہدایات، آفاقی ہمہ گیریت والی سچائی کی نمائندگی کرتی ہیں اور سچائی کا عمل خواہ ہندو کرے، سکھ کرے، عیسائی کرے، یہودی یا مسلمان یا پھر کوئی بے دین کرے، یہ مثبت نتیجہ دے گا۔ کسی کو معلوم ہو یا نہ ہو کہ یہ اسلامی ہدایات ہیں، وہ شخص یا قوم اس کے بہتر نتائج سے مستفید ہوگی۔ اب اس اصول کو سامنے رکھ کر اپنی مشکلات کو دیکھتے ہیں۔ا سلامی حکم ہے کہ ’’پانی کو آلودہ نہ کیا جائے۔‘‘ ہم کیا کرتے ہیں؟ عوام تو ایک طرف، ادارے یہ کام پوری رفتار کے ساتھ کر رہے ہیں۔ بڑی آبادی قدرتی طور پر زیادہ مقدار میں گندگی پیدا کرتی ہے۔ اس کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے بڑی رقوم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور رقوم دنیا بھر میں عوام سے اکٹھے کی جاتی ہیں۔ مسلمانوں میں جن کو خیرات اور صدقات کی مد میں ڈالاجاسکتا ہے، لیکن ہمارے صاحبانِ استطاعت لوگ محصولات کی ادائیگی سے عموماً نفرت کرتے ہیں۔ صدقات و خیرات بہت کم اور غیر قوی مقاصد کے لیے دیتے ہیں۔ اپنی نالائقیوں کی وجہ سے حکومتیں بھی آسان اور عوام کو قابلِ قبول طریقہ دینے میں ناکام رہتی ہیں۔ خود مسلمان اپنے ہاں عدلِ اجتماعی کے قیام میں ناکام چلے آرہے ہیں۔ اس لیے موجودہ زکوٰۃ اور صدقات سے مستفید ہونے والے موجودہ طریقے کو تبدیل نہیں ہونے دیتے۔ پارلیمنٹ زیادہ تر عضوِ معطل رہتا ہے۔ مسائل اور قوانین اس میں کم لائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ غالباً اس میں قابل افراد کی کمی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ لوگ زیادہ تر غیر متحرک رہتے ہیں۔ جن مسائل پر عدالتیں سوموٹو ایکشن لیتی ہیں، وہ پارلیمنٹ کی خاموشی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ پارلیمنٹ میں صاحبانِ بصیرت و بصارت ہونے چاہئیں۔
گندگی ایک ایسی برائی ہے کہ زیادہ سے زیادہ امراض اس سے پیدا ہوتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے، لیکن مسلمانوں کے ذرائع ابلاغ اس پر عموماً خاموش رہتے ہیں۔ یہ حکمِ رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے انکار ہے اور اس کے ارتکاب پر سزا ہوگی۔ عوام کی تربیت زیادہ تر اُن روایات اور قصوں کہانیوں اور واقعات پر دانستہ یا نادانستہ طورپر کی جاتی ہے جو صدیوں بلکہ ہزاروں سال پرانی ہیں۔ اُس وقت آج والے مسائل موجود نہ تھے۔ میں ایسے مذہبی اداروں کو جانتا ہوں جن میں سیکڑوں طلبہ رہائش رکھتے ہیں، لیکن ان کے فلشوں کا نکاس گلی کی نالیوں میں ہے۔ تقریباً ہر پکے کچے مکان کا یہی طرز ہے۔ ہوٹلوں کا بھی یہی طریقۂ کار ہے۔ ملاوٹی اور جعلی اشیائے خوراک و دوائیوں کی فروخت ہمارے یہاں معمول ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر جانوروں سے زیادہ دودھ نکالنے والے انجکشنوں پر پابندی سے معلوم ہوا کہ یہ بہت سارے امراض انسانوں میں پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح چائینہ سالٹ کو منع کیا گیا۔ مرغیوں اور مچھلیوں کو دیا جانے والا اور فصلوں کے لیے کیمیائی کھاد سب نقصان دہ ہیں۔ البتہ ان کو سپلائی کرنے والوں کے فائدے ہیں۔ یہی ناجائز منافع خور آگے جاکر سیاست اور انتخابات میں ’’امداد‘‘ دیتے ہیں۔
روزانہ سامنے آنے والے نئے امراض اور ان موجودہ امراض کا خاتمہ جیسے معاشروں کے لیے مشکل کام ہے۔ البتہ اگر محراب و منبر سے مسلسل محنت کی جائے، تو بہتری آسکتی ہے۔ ہر جگہ درخت اور پودے لگانے سے فضا صاف ہوگی اور ٹمپریچر معتدل ہوگا۔ یہ کام آسان ہے، اس کو عام ہونا چاہیے۔ اگر ہر مسلمان قرآن و سنت کی تعلیمات پر کم ازکم بھی عمل کرے، تو کئی مسائل ختم یا کم ہوسکتے ہیں۔

……………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔