بھائی سیاست کیا چیز ہے؟ سیاست کس لیے کی جاتی ہے؟ کیا سیاست اجتماعی مفادات کے حصول کا ذریعہ ہے یا یہ عوام میں شعور و آگہی کے لیے کی جاتی ہے؟ یہ نظریے کا پرچار ہوتی ہے؟ کیا یہ سیٹ اَپ کو برقرار رکھنے کے لیے عمل میں آتی ہے یا سیاست کا مطلب بس ایک کھیل ’’سیاست سیاست‘‘ کھیلنا ہوتا ہے؟ کیا سیاست اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ ہوتی ہے یا سیاست اعلیٰ اخلاقی اور انسانی قدروں کا پیمانہ ہوتی ہے؟ کیا سیاست پر چند اشخاص کی اجارہ داری ہوتی ہے یا سیاست کا مقصد اور مطلب لعن طعن اور دشنام طرازی ہوتا ہے؟ کیا سیاست خدمت اور عبادت ہے یا سیاست سرمایہ داری اور جاگیرداری کے تحفظ کے لیے ہوتی ہے؟ کیا سیاست دینی فریضہ ہوتی ہے یا سیاست برائے نام یا سیاست برائے سیاست ہوتی ہے؟ کیا کسی سیاسی پارٹی کے اعلیٰ نظریات ہوتے ہیں یا وہ نظریات ادھار کی نظریات ہوتے ہیں؟ کیا ملکی طور پر سیاسی پارٹیوں نے نظریات کو فروغ دیا ہے؟ کیا منشور اور اغراض کو سیاست کہا جاتا ہے؟ عالمی طور پر دوسری طرف کی سیاست کون سی اقدار کا پاس رکھنے کے لیے کی جاتی ہے؟
یہ اور ان جیسے درجنوں سوالات ہیں جو کہ ہماری مملکت کی مروجہ سیاست پر اٹھتے رہتے ہیں۔ مطلب ان سوالوں کا سیاست پر نقد و تنقید اور جرح کرنا نہیں ہوتا بلکہ دیکھنا ہوتا ہے کہ سیاست اپنی ذمہ داری کس طرح ادا کر رہی ہے اور سیاسی پارٹی کے نظریات کیا ہوتے ہیں اور کیا ہونے چاہئیں؟اس طرح پتا چلتا ہے کہ سیاست کی آڑ میں آوارہ گردی اور کرپشن تو نہیں کی جا رہی؟
میں کم از کم وثوق سے کہتا ہوں کہ مروجہ سیاست مجموعی مسائل حل کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ یہ امور اُخر وی زندگی کو سنوارنے کے لیے نہیں بلکہ دنیاوی ذاتی مفاد اور سستی شہرت کی خاطر نمٹائے جاتے ہیں۔
مملکت خداداد کو آزاد ہوئے 70 سال ہوچکے ہیں لیکن اب تک بنیادی حقوق معطل ہیں۔ ہر ادارے پر غریب در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے۔ پیچیدہ قانون اور مہنگے انصاف نے عوام کا جینا محال کر کے رکھ دیا ہے۔ طاقتور کا قانون ہے۔ اشراف اور خواص کو صرف انصاف کے حصول کا حق ہے، عوام جائیں بھاڑ میں۔ آئین پر عمل ہوتا ہے اور نہ قانون پر، بس جس کا جی جب چاہا قانون اور انصاف کا خون کرکے ہاتھ رنگ لیے۔ فردِ واحد کے لیے قوانین میں ترامیم کی جاتی ہیں اور جب عدالتِ عالیہ اس کو کالعدم کرتی ہے، تو واویلا مچ جاتا ہے۔ کیا عدالت کاکام نہیں کہ وہ آئین کی تشریح کرے؟ کیا باسٹھ اور تریسٹھ آئین کا حصہ نہیں؟ کیا وزیر اعظم اور دیگر وزرا کو صادق اور امین نہیں ہونا چاہئے؟ کیا پارٹی کی صدارت ایک بے ایمان اور دروغ گو شخص کرسکتا ہے؟
کرپشن، لوٹ کھسوٹ، قتل، خود کش دھماکے، رشوت، سفارش، میرٹ کا قتلِ عام، کساد بازاری، بے حیائی، بے شرمی یہی جمہوریت اور مروجہ سیاست کا مطلب ہیں۔ کیا ریاست خون خرابے، دہشت گردی اور نا معلوم افراد کے ہاتھوں قتل عام کی ذمہ دار نہیں؟ کیا اس ملک میں سیاسی پارٹیاں مختلف سمت جانا اپنا فریضہ سمجھتی ہیں؟ کیا انصاف اور عدل صرف حکمرانوں کا حق ہے؟ کیا اداروں کے ساتھ ٹکراؤ قومی مفاد میں کیا جا رہا ہے؟ کیا قانون کے تابع آزادیِ اظہار رائے عوام اور شہریوں کا حق نہیں؟ کیا غائب شدہ افراد جن پر جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے، کو عدالتوں کے سامنے پیش کرنے کا حق وہ کھوچکے ہیں؟ اس طرح کیا ہم مسلمان صرف ’’کلمہ گو‘‘ ہیں؟ کیا ہم کو ظلم اوربے انصافی نہیں دِکھتا؟ کیا ہم اتنے خود غرض ہوگئے ہیں کہ صرف رزق کے پیچھے بھاگیں گے؟ کیا ہمارے مسائل ختم ہونے کا نام نہیں لیں گے؟ کیا قرآن پاک کا کوئی حکم یہاں پر نافذ العمل بھی ہے؟ کیا واقعی یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے؟ کیا ہم ہر واقعے کے بعد باہر کی سازش کی طرف اشارے نہیں کرتے؟ کیا ہمارا ملک اس کا متحمل تھا کہ ہم کو دوسروں کی جنگوں کی بھٹی میں جھونکا جائے؟ کیا ہمارے سماجی اور معاشرتی اخلاق مر چکے ہیں؟ کیا ہماری ثقافت اور تہذیب کے پاس اس کا حل نہیں ہے؟ کیا ہمارے دوست ممالک ہم سے مفادات کا دوستانہ کریں گے؟ کیا ہماری قومی غیرت کو زنگ لگ چکا ہے؟ کیا ہماری داخلہ و خارجہ پالیسی کی سمت متعین ہے؟ کیا اداروں کو آئین کے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام سے چڑ ہے؟ کیا اصلاحات ہونی چاہئیں؟ اس کے لیے کوئی تدبیر سوچ لی ہے؟ کیا خیبر پختونخواہ کے بعض علاقوں میں جب امن قائم ہوچکا ہے، تو سیکورٹی اداروں کو وہاں سے نکال کر سول ایڈمنسٹریشن کو اختیارات کی منتقلی نہیں کی جانی چاہئے؟ کیا مڈل مین کے ذریعے کرپشن کرنے کا نیا طریقہ نہیں نکالا جا چکا ہے؟ کیا مدارس اصلاحات سے مسائل ختم ہو جائیں گے؟ کیا تعلیم اور صحت اصلاحات نا ممکنات میں سے ہیں؟ کیا ہم ہر سال قومی بجٹ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بھاری سود کے عوض قرضے لیں گے؟ کیا آپریشن راہِ راست، رد الفسا د اور ضرب عضب وغیرہ سے سارے مسائل حل ہوگئے اور دہشت گردی تھم گئی ہے؟ کیا جے آئی ٹی سے کرپشن کے لیے نئے قانون کی داغ بیل ڈالی جا سکتی ہے؟ کیا کوئٹہ کمیشن رپورٹ پر عمل درآمد کرکے ادارو ں نے اصلاحِ احوال کیا ہے؟ کیا سیاست صرف مذہبی ہوتی ہے؟ کیاجمہوریت میں جمہور کی رائے کا کچھ بھی احترام کیا جاتا ہے؟ کیا سی پیک منصوبہ ہی سارے مسائل کا حل فراہم کرتا ہے؟ کیا حکمرانوں کو ہر وقت جمہوریت خطرے میں نظر آتی ہے؟ کیا دانش اور دانشور نام کی کوئی چڑیا وجود رکھتی ہے؟ کیا درباری سیاست ہی سیاست ہے؟ کیا لوٹ کھسوٹ قوم کا مرض بن چکا ہے؟ کیا عام افراد بھی کرپٹ ہوچکے ہیں؟ کیا اسٹیبلشمنٹ ہی اصل معاملات کو چلاتا ہے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ ہی حکومتوں کو گراتا اور بناتا ہے؟ کیا جمہوریت صرف موروثیت کو کہتے ہیں؟ کیا طعن و تشنیع کا نام سیاست ہے؟ کیا پنجاب کی سیاست ہی سیاست کا میدان ہے؟ کیا چھوٹے صوبوں میں سیاست کا وجود ہے؟
یہ اور اس قبیل کے دیگر سوالات کے جوابات ڈھونڈنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تو کیا ہے کوئی ذکر شدہ سوالات کے جوابات ڈھونڈنے والا؟

………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔