گذشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ عدلیہ کی مثال گاؤں کے بڑے کی طرح ہوتی ہے۔ انہوں نے گاؤں کے روایتی بزرگ بابا رحمتے کا حوالہ بھی دیا کہ جب بابا رحمتے کوئی فیصلہ کرتا ہے، تو کوئی اس کو گالی نہیں دیتا۔ اس طرح پاکستان کے عوام کو بھی اس بابے پر اندھا دھند اعتماد کرنا چاہئے۔ لیکن میں اس بابے کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا۔ کیوں کہ اس نے کبھی طاقتور حکمران کے خلاف فیصلہ نہیں دیا ہے۔ اور آج تک ہمارا یہ نظام جس بدحالی کا شکار ہے، اُس کا ذمہ دار بھی بابے کا ایجاد کردہ نظریۂ ضرورت ہی ہے۔ 24 اکتوبر 1954ء کو جب گورنر جنرل غلام محمد نے قانون ساز اسمبلی توڑی، تو سندھ ہائیکورٹ نے اسپیکر قانون ساز اسمبلی مولوی تمیز الدین کی درخواست پر گورنر جنرل کے اقدام کو غیر آئینی قرار دے کر اسمبلی کو بحال کر دیا، لیکن اس وقت کے بابے چیف جسٹس محمد منیر نے غلام محمد کی ملی بھگت سے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ ایجاد کیا اور اپنے فیصلے میں لکھا کہ کبھی کبھی قانون سے ہٹ کر اقدامات ضروری ہو جاتے ہیں اور قانون کی پاس داری ہر وقت ضروری نہیں ہوتی۔ اُس بابے نے یہ روایت قائم کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے عدلیہ کی ساکھ مجروح کر دیا۔

نظریۂ ضرورت کا مؤجد چیف جسٹس محمد منیر (Photo: Lahore High Court, Lahore)

اس کے بعد جسٹس محمد ابراہیم اور دوسرے جج صاحبان ایوب خان کی کابینہ میں وزیر بھی رہے۔ بابا رحمتے ’’مولوی مشتاق‘‘ نے اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو ذاتی بغض کے نتیجے میں صدر جنرل ضیاالحق کی ملی بھگت سے سزائے موت دے دی۔ کیوں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے وزارت عظمیٰ کے دور میں مولوی مشتاق کی سفارش رد کرکے اُسے ترقی نہیں دی تھی۔ نصرت بھٹو اور چیف آف آرمی سٹاف کے درمیان مقدمے میں بھی بابے چیف جسٹس انوار الحق نے نظریۂ ضرورت کا سہارا لیا تھا جس کا نتیجہ پوری قوم نے 11 سال تک بھگتا تھا۔ اس بابے رحمتے نے تو ضیاء الحق کو عوام کے بنیادی حقوق جو کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 2(3) میں درج ہیں، کو معطل کرنے کا اختیار بھی دے دیا۔ بابا ’’جسٹس غوث علی شاہ‘‘ تو ضیاء الحق کے دور میں صبح مقدمے سنتا تھا اور پھر سارا دن وزارت کے مزے بھی اُڑاتا تھا۔ اس کے علاوہ محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف ہونے کے بعد حاجی سیف اللہ خان نے فیڈریشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ مقدمہ ابھی چل رہا تھا کہ ضیاء الحق کا طیارہ تباہ ہوگیا۔ اس واقعے کے بعد بابے رحمتے چیف جسٹس محمد حلیم نے صدر غلام اسحاق خان کو فون کرکے پوچھا کہ اس کا کیا فیصلہ دوں اور یہ کہ آرمی چیف اسلم بیگ کیا چاہتے ہیں؟ اس کے بعد بیگ اور اسحاق نے اُسے جواب دیا کہ جونیجو حکومت بحال کرنے کے بجائے انتخابات کا حکم دے دو اور پھر نومبر میں انتخابات طے ہوگئے۔

’’مولوی مشتاق‘‘ نے ذوالفقار علی بھٹو کو ذاتی بغض کے نتیجے میں صدر جنرل ضیاءالحق کی ملی بھگت سے سزائے موت دے دی۔ کیوں کہ بھٹو نے اپنے وزارت عظمیٰ کے دور میں مولوی مشتاق کی سفارش رد کرکے اُسے ترقی نہیں دی تھی۔ (Photo: Lahore High Court)

1993ء میں جب سپریم کورٹ میں غلام اسحاق خان کے خلاف مقدمہ چل رہا تھا، تو چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے آرمی چیف جنرل آصف نواز کے ساتھی میجر جنرل ضیاء الدین کو کال کرکے پوچھا کہ اس فیصلے کا کیا کروں؟ ضیاء الدین نے آرمی چیف سے پوچھا، تو اُس نے کہا کہ یہ پیغام چیف جسٹس تک پہنچا دو کہ ’’جو ٹھیک لگے وہی کرو۔‘‘ کیا موجودہ جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس نسیم حسن شاہ کا داماد نہیں؟ اس کے علاوہ چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی اور اس کے بعد چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے جنرل مشرف کے مارشل لا کو قانونی قرار دیا تھا، تو آپ ہی بتائیں کہ عوام ایسا ریکارڈ رکھنے والے بابے پر کس طرح اعتبار کریں؟ یہ بابا جب کسی کو بَری کرتا ہے، تو پتا چلتا ہے کہ وہ تو سالوں پہلے جیل میں انتقال کرچکا ہے۔ لوگ اس بابے کا نام ڈرانے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور اپنے مخالف سے کہتے ہیں کہ میں تمھیں عدالتوں میں گھسیٹوں گا۔ اگر بابا رحمتے ٹھیک کام کر رہا ہوتا، تو آج اسے قسمیں اُٹھا کر وضاحتیں نہیں دینا پڑ رہی ہوتیں۔ اس پر تب لوگوں کا اعتماد بحال ہوگا جب جج صاحبان کے بجائے ان کے فیصلے بولیں گے۔ اور انصاف صرف ہونا نہیں چاہئے بلکہ انصاف ہوتا ہوا دکھائی بھی دے۔

………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔