سوات کے لوگوں نے ’’تبدیلی‘‘ کے نام پر سوات سے تحریک انصاف کے دو ایم این ایز اور چھے ایم پی ایز کو منتخب کیا، تاکہ وہ دہشت گردی، سیلاب اور دیگر آفات سے انتہائی متاثرہ اس ضلع کی محرومیاں دور کریں اور اس وادی کو دوبارہ صحیح معنوں میں جنت نظیر وادی بنا دیں، تاکہ یہاں کی سب سے بڑی صنعت ’’سیاحت‘‘ کا پہیہ دوبارہ چل سکے۔ اس وقت آبادی کے لحاظ سے سوات، خیبرپختونخوا کا تیسرا بڑا ضلع ہے۔ پشاور کے بعد مردان اور سوات کی آبادی میں محض اٹھارہ بیس ہزار آبادی کا ہی فرق ہے۔ اس وقت سوات کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کا موضوع زیرِ بحث ہے۔ تحصیل بابوزئی(مینگورہ)، بریکوٹ، چارباغ اور کبل کے سیاست دان، منتخب نمائندے اور زیادہ تر لوگ سوات کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ تحصیل مٹہ، خوازہ خیلہ اور بحرین کے کچھ منتخب نمائندے اور لوگ ’’اَپر سوات‘‘ ایک الگ ضلع کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان تحصیلوں سے تعلق رکھنے والے ضلع ناظم سوات محمد علی شاہ خان اور وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی محب اللہ خان بھی سوات کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کی مخالفت میں ہیں۔ بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے ایم پی اے ڈاکٹر حیدر علی آئندہ انتخابات میں اپنا حلقہ جیتنے کے لئے سوات کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ وہ سہ بارہ جیت سکیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر حیدر علی خان کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ سیاسی نہیں بلکہ انتظامی ہے۔ اپر سوات کے لوگوں کی خواہش ہے کہ اُن کے لئے اپر سوات کے نام سے ایک الگ ضلع بنایا جائے۔ یہ ضلع بننے سے مینگورہ شہر پر رش کم ہو جائے گا۔ وہاں سرکاری محکموں کے سربراہان ہوں گے جس سے عوام کی مشکلات کم ہو جائیں گی۔ ہسپتال اَپ گرےڈ ہوں گے اور لوگوں کو گھر کی دہلیز پر صحت کی سہولیات میسر ہوجائیں گی۔ لوئر سوات کے ہسپتالوں، دفاتر اور کالجوں پر رش کا دباؤ بہت کم ہو جائے گا۔

بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے ایم پی اے ڈاکٹر حیدر علی آئندہ انتخابات میں اپنا حلقہ جیتنے کے لئے سوات کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (Photo: pakhtoonmagazine.com)

دوسری طرف ضلع ناظم سوات محمد علی شاہ خان جن کا تعلق بھی اپر سوات میاندم سے ہے، کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح سے سوات کے لوگوں کے رشتے تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ انہوں نے کہا کہ امیر حیدر خان ہوتی جب وزیر اعلیٰ تھے، تو انہوں نے مردان میں ہر وہ کام کیا جو صوبائی حکومت کرسکتی تھی۔ اگر اضلاع کی تقسیم میں ترقی یا فائدہ ہوتا، تو امیر حیدر خان ہوتی مردان کو دو کی جگہ تین اضلاع میں تقسیم کرتے جو اُن کے دائرہ اختیار میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی اپر سوات میں پولیس ایس پی کرایہ کی عمارت میں ہے۔ ایک نیا ضلع بنانے پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت تو سوات میں کوئی ترقیاتی کام نہ کرسکی، اب جب حکومت کے چند ہی ماہ باقی ہیں، تو اُن کو سوات کی تقسیم کا خیال چرا۔ انہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’’ایک ایم پی اے اپنی نشست جیتنے کے لئے سوات کو تقسیم کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پہلے صوبائی حکومت سوات کی محرومیوں کا ازالہ کرے، اس کے بعد سوات کو سات اضلاع میں بھی تقسیم کرے، تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

’’ایک ایم پی اے اپنی نشست جیتنے کے لئے سوات کو تقسیم کر رہے ہیں۔‘‘ (Photo: Dream Green PK – blogger)

سوات کو دو اضلاع میں تقسیم کے سب سے بڑے مخالف سوات ٹریڈرز فیڈریشن کے صدر عبدالرحیم کا کہنا ہے کہ اس حکومت نے ساڑھے چار سال میں سوات میں کوئی کام نہیں کیا۔ سوات کے ہسپتالوں کی حالت اصطبل سے بھی بدتر ہے۔ سوات میں دس سال سے جیل نہیں ہے اور دفعہ107 میں جیل جانے والے ملزم سے وکالت نامہ دستخط کرنے کے لئے بھی لوگوں کو بونیر اور دیر جانا پڑتا ہے۔ اگر ضلع کی تقسیم اور اضلاع میں اضافے سے ترقی کا دور شروع ہوتا ہے، تو پہلے پشاور کو چار اضلاع میں تقسیم کیا جائے۔ ساڑھے چار سال پہلے اس حکومت نے اضلاع کی تقسیم کی بات کیوں نہیں کی؟ اب چار، پانچ ماہ کے عرصے میں تحریک انصاف کے ایک ایم پی کو سوات کی تقسیم کا خیال کیوں آیا؟ اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ جن لوگوں نے سوات کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا ہے، اُن کے منصوبے کے مطابق مینگورہ سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر سالنڈہ منگلور سے اَپر سوات کا ضلع شروع ہوگا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ایک ایم پی اے کا صوبائی حلقہ یہاں سے شروع ہوتا ہے اور وہ یہ سب کچھ اپنے حلقہ کے لئے کر رہے ہیں۔ تحصیل چارباغ کے منتخب بلدیاتی نمائندوں نے پہلے ہی اَپر سوات کے ساتھ شامل ہونے کے فیصلہ کو مسترد کیا ہے۔

اگر ضلع کی تقسیم اور اضلاع میں اضافے سے ترقی کا دور شروع ہوتا ہے، تو پہلے پشاور کو چار اضلاع میں تقسیم کیا جائے۔ (Photo: Al Jazeera)

اس طرح تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سوات سے پہلے بونیر اور پھر شانگلہ کو الگ کیا گیا لیکن آج بھی شانگلہ کے 90 فیصد اور بونیر کے 80 فیصد لوگ اپنے کاموں اور خریداری کیلئے سوات آتے ہیں۔ خاص کر مریض تو ضرور سوات لائے جاتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ ایک سیاسی گیم ہے اور اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایک نئے ضلع میں درجنوں محکمے کام کرتے ہیں جن پر اربوں روپے کا خرچہ اٹھتا ہے اور صوبائی حکومت کنگال ہے۔
اس سے پہلے بھی گراسی گراؤنڈ میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے جلسہ میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سوات کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کا اعلان کرنے آئے تھے۔جلسہ میں اَپر سوات اور لوئر سوات سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ہزاروں کارکن موجود تھے جن میں اکثریت کا تعلق اپر سوات سے تھا۔ اُس جلسہ میں جب وزیر اعلیٰ تقریر کرنے لگے، تو انہوں نے اعلان سے پہلے جوشِ خطابت میں حاضرین سے سوال کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ سوات کو دو اضلاع میں تقسیم کیا جائے؟ جس پر جلسہ گاہ میں موجود لوگوں کی اکثریت نے نفی میں جواب دیا۔اس کے بعد وزیر اعلیٰ نے سوات کو دو اضلاع میں تقسیم کا اعلان نہیں کیا۔ اس حوالہ سے سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی اعلان کی جگہ حقیقت میں سوات کو دو اضلاع میں تقسیم کیا جائے، تو اس سے اَپر سوات کے لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت سب سے پہلے اَپر سوات ضلع کے اعلان سے قبل تمام سرکاری افسران کے لئے دفاتر اور گھر تعمیر کرے۔ ضلع کی سطح کا ہسپتال، جوڈیشل کمپلیکس تعمیر کرے اور ضلع میں جو بھی عمارت زیر تعمیر ہے ، اُس کی تعمیر مکمل کرلے، تاکہ عوام کو یقین ہو جائے کہ واقعی یہ سیاسی اعلان نہیں حقیقی ضلع ہے۔ تمام انتظامات مکمل ہونے کے بعد پھر اپر سوات ضلع کا اعلان کیا جائے، تو سوات کے تمام لوگ اس کو خندہ پیشانی سے قبول بھی کریں گے اور حکومت کی اس نیک کاوش کو سراہا بھی جائے گا۔

………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔