جب برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل کو ’’ورلڈ وار ٹو‘‘ میں جرمنی کے لندن حملوں اور اقتصادی تباہی کے بارے میں بتایا گیا، تو اس نے پوچھا کہ ’’کیا عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں اورجج عام طور پر انصاف فراہم کر رہے ہیں؟‘‘ تو جواب ملا کہ ہاں عدالتیں اپنا کام کرر ہی ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ خدا کا شکر ہے کہ اگر عدالت کام کر رہی ہے، تو کچھ بھی غلط نہیں ہوسکتا۔

سر ونسٹن چرچل کا فائل فوٹو۔ (Photo: theverge.com)

موجودہ زمانے میں فوری انصاف کی فراہمی میں سب سے زیادہ مشکل چیلنج زیر التوا مقدمات کا نمٹانا ہے۔ مقدمات میں غیر ضروری تاخیر ایک طرف عدالتوں پر عوامی اعتماد کو کم کر دیتی ہے، تو دوسری طرف ملک کو بھی سماجی اور اقتصادی طور پر کمزور کر دیتی ہے۔ پاکستان میں 1.94 ملین زیر التوا مقدمات ہیں۔ ہمارے آئین کے آرٹیکل 37 (ڈی) کے تحت ہر شہری کو عدالتی طور پر فیصلہ لینے کا حق حاصل ہوتا ہے، لیکن زیر التوا مقدمات کی بہت بڑی تعداد اس حق کو فراہم کرنے میں مزاحم ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان کی آبادی 195.4 ملین ہے۔ اس میں ایک کمیونٹی کے دوسرے سے متصادم مفادات کے تنازعات ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں زیادہ مقدمات سماعت پذیر ہوں گے، وہاں اتنے ہی زیادہ مسائل میں کمی آئے گی۔ اس کو ایک مثال کے طور پر سمجھتے ہیں۔ نومبر 2016ء کے دوران میں پاکستان کی سپریم کورٹ میں قائم شدہ مقدمات کی تعداد 1180 ہے اور اس مدت میں فیصلہ ہونے کی شرح 1096 ہے۔ اس کا مطلب یوں ہوگا کہ سپریم کورٹ بروقت انصاف فراہم کر رہا ہے۔غیر ملکی سرمایہ کاروں کوتاخیر سے انصاف ملنے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں واضح کمی آئی ہے۔

پاکستان میں 1.94 ملین زیر التوا مقدمات ہیں۔ (Photo: Dawn)

مقولہ ہے: ’’انصاف میں تاخیربے انصافی کو جنم دیتی ہے۔‘‘ دوسرا قانون مقولہ ہے کہ ’’انصاف فراہم کرنے میں عدالت جتناتیزی دکھائے گی، اتنا انصاف کے دفن ہونے کا خطرہ موجود رہے گا۔‘‘ ان مقولوں کے مطابق زیادہ تاخیر اچھا شگون ہے اور نہ ہی زیادہ تیزی۔ تیز تر انصاف فراہم کرنے کے لئے عدالتوں کو بہت بڑی مقدار میں مقدمات سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل کرنی چاہئے اور تیز تر انصاف فراہم کرکے مقدمات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ قانون اور جسٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 30 نومبر 2016ء کو سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 30901 ہے اور وفاقی شرعی عدالت میں 649 ہے۔ اسی طرح لاہور ہائی کورٹ میں 154604 زیر التوا مقدمات ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں 84375 اور پشاور ہائی کورٹ 30919 مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ میں 6151 اور اس طرح اسلام آباد ہائی کورٹ میں 13358 بالترتیب ہیں۔ اسی طرح پنجاب کی ضلعی عدالتوں میں 65.5 فیصد مقدمات میں اضافہ ہوا ہے۔ سندھ کی ضلعی عدالتوں میں 118814 اور خیبر پختونخواہ کی ضلعی عدالتوں میں 187043 مقدمات زیر التوا ہیں۔ لیکن خطرناک حقیقت یہ ہے کہ 316 مربع کلو میٹر اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں میں 31018 زیر التوا معاملات کے ساتھ تقریباً 347190 مربع کلو میٹر پرپھیلے بلوچستان کی ضلعی عدالتوں یعنی 1315 6کے مقابلے میں تقریبا دو گنا زیادہ بوجھ ہے۔ اس کا ایک حل نیشنل جوڈیشل پالیسی میں دیا گیا ہے جس میں صریحی طور پر یہی کہا گیا ہے کہ درخواست ضمانت دفعہ 497ض ۔ف سیشن ڈویژن اور ہائی کورٹ کی طرف سے سات دن کے اندر اندر فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی طرکم از کم14 دن کی مدت میں پولیس چالان جمع کرایا جائے گا۔ جن فوجداری مقدمات میں سزا 7 سال اور اس سے اوپر قید ہوتی ہے جس میں موت کی سزا بھی شامل ہے، ایک سال کی مدت میں فیصلہ کئے جائیں گے۔ خاندانی معاملات کوتین تا چھے ماہ کے اندر فیصلہ کیا جانا چاہئے۔ چار مہینے کے عرصے میں کرایہ کے معاملات کو تیزی سے فیصلہ کیا جانا چاہئے۔ 1.94 ملین زیر التوا مقدمات کوہِ ہمالیہ سرکرنے کے مترادف ہیں۔ مقدمات کے جلد فیصلوں کے لئے تجرباتی اور تحقیقاتی بنیادوں پر فریم ورک پالیسی بنانے کی اشدضرورت ہے۔ ایک طرف حکومت اور سپریم کورٹ ان مقدمات سے نمٹنے کیلئے آہستہ آہستہ اقدامات کر رہی ہے، تودوسری طرف لگتا ایسا ہے کہ یہ اقدامات صرف کاغذ ی کارروائی تک محدود ہیں اور اس عمل کی تعمیل نہیں ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا مقدمات کے ساتھ نمٹنے کے لئے ذیل میں کچھ عملی سفارشات ہیں۔

جسٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 30 نومبر 2016ء کو سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 30901 ہے اور وفاقی شرعی عدالت میں 649 ہے۔ (Photo: The Frontier Post)

٭ زیر التو مقدمات کو حل کرنے کے لئے موجودہ جج کم ہیں۔ روزمرہ کے مقدمات کے بوجھ کو دیکھتے ہوئے ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جانا از حد ضروری ہے۔ مثال کے طور پر موسم سرما کے موسم میں ایک گھنٹے کے وقفے کے ساتھ عدالتوں کا وقت 9 بجے سے 4 بجے تک ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جج کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر اپنی کاز لسٹ کے مطابق فیصلوں کو سننے کیلئے 6 گھنٹے یعنی 360 منٹ ہیں۔ اگر وہ ہرمقدمے کو سننے کے لئے صرف دس منٹ دیتا ہے، تو اس طرح وہ ایک دن میں 36 مقدمات سے نمٹنے کے قابل ہوسکتا ہے۔ حالانکہ ان حالات کے تناظر میں ایک جج کے ساتھ کاز لسٹ پر تقریباً 100 سے زائد مقدمات ہوتے ہیں۔ اس لئے ججوں کی تعداد بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔
٭ زیر التوا مقدمات کی بڑی تعداد سول یعنی دیوانی عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔ لہٰذا ان مقدمات کو نمٹانے کے لئے ناگزیر طور قابل اور اہل وکلا کو جج مقرر کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے منظور شدہ جوڈیشل سروس کمیشن ایک اچھا اقدام ہے۔ اس طریقۂ کار کی وجہ سے تعینات ججوں کو بہتر مواقع فراہم کئے جانے چاہئیں۔ مثال کے طور پر زیادہ سے زیادہ سول جج ترقی پاکر اضافی سیشن جج کے طور پر ریٹائر ہو رہے ہیں۔ سول جج کو مزید ترقی کے مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں۔اسکے علاوہ، ججوں کا انچارج صرف دو سطحوں پر ہونا چاہئے جس میں سول جج اور اضافی ضلعی سیشن جج کا ہونا شامل ہے۔
٭ زیر التوا مقدمات کو ختم کرنے کا عمدہ حل ’’شام کی عدالتوں‘‘ کا قیام کرنا ہے۔ حالیہ اسلام آباد میں تجرباتی طور پر شام کی عدالتوں کے لئے ایکٹ پاس کرلیا گیا ہے۔ موجودہ عدالتی بنیادی ڈھانچے کو دیکھ کر شام کی عدالتوں کو انہی عمارتوں میں قائم کیا جاسکتا ہے اور ججوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو بھی ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ عدالتیں ایک طرف بلاک لاگ اضافی بوجھ کو کم کرنے میں مدد دیں گی، تو دوسری طرف نوجوان وکلا کو مواقع فراہم کریں گی۔
ایک صورت میں غیر قانونی طور پر تاخیر کرنے والے یا متفرق ایپلی کیشن یا شہادت کے مرحلے کی وجہ سے زیادہ مقدمات تاخیر سے نمٹتے ہیں۔ اس لئے تمام گواہوں پربیک وقت جرح اور زبانی شہادت کے لئے ایک ہی تاریخ مقرر کرنے کے لئے پالیسی تشکیل دینی چاہئے۔شہادت کے لئے تین مواقع سے زیادہ نہیں دینے چاہئیں۔
جب ایک مرتبہ عدالت ایک مقدمہ کو حاضری نہ ہونے یا کسی دوسری وجہ سے خارج کر دیتی ہے، تو دوبارہ اس مقدمے کو کھولنے کیلئے بھاری جرمانے سے مشروط کیا جانا چاہئے۔ متفرق درخواستوں کو 7 دنوں میں فیصلہ کردیا جانا چاہئے۔ وکیلوں کی ہڑتال اور بار بار التوا پر پابندی لگانی چاہئے اور اس عمل سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے جرمانے لگانے چاہئیں۔ فوری انصاف کے راستے میں ایک سنجیدہ رکاوٹ وکیلوں کی غیر ضروری ہڑتالیں ہے۔ جب وکیل ہڑتال پر ہوتا ہے، تو پوری عدالتی کارروائی روک دی جاتی ہے۔ پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلوں کو ہڑتالوں کے سلسلے میں اعتماد میں لینا چاہئے اور اس پر کوئی واضح پالیسی بنانی چاہئے۔ اسی طرح ججوں کی جانب سے اکثر عدالتی فیصلے بھی انصاف کو ختم کرنے میں رکاوٹ ہیں۔ ججوں کے فیصلوں پر ایک کمیشن بنانی چاہئے جو فیصلہ جات کی جانچ پڑتال کرے، تاکہ پتا لگے کہ کس جج کے فیصلے کن وجوہات پر منسوخ کئے گئے ہیں ۔اس طرح اس جج کی ترقی اور تنزلی میں راہ ہموار ہوجائے گی۔
گذشتہ سال پاکستان نے اپنا پہلا ’’ای کورٹ‘‘ قائم کیا ہے۔ اس ٹیکنالوجیکل دورمیں ای عدالتوں کا قیام صحیح سمت میں ایک بہتر قدم ہے۔ اس کے پیچھے کارفرما نقطۂ نظر عدالتوں کی سستی کو ختم کرکے اس قابل بنانا ہے کہ جلد از جلد انصاف فراہم ہوسکے۔ آن لائن تحریری بیان، گواہوں کے بیانات، ویڈیو کرانفرسنگ کے ذریعے شہادت جرح کا عمل فوری طور پر انصاف کی فراہمی میں مدد گار ثابت ہوگا۔ ہر ضلع اور تحصیل سطح پر ان عدالتوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں ان پریشان کن حالات میں خطرناک مجرموں؍ دہشت گردوں کے مقدمات کو محفوظ طریقے سے ’’ای عدالتوں‘‘ کے ذریعہ نمٹایاجاسکتا ہے۔ اسطرح گواہ کا تحفظ ان عدالتوں کے ذریعے آسان ہوتا ہے ۔

گذشتہ سال پاکستان نے اپنا پہلا ’’ای کورٹ‘‘ قائم کیا ہے۔ اس ٹیکنالوجیکل دورمیں ای عدالتوں کا قیام صحیح سمت میں ایک بہتر قدم ہے۔(Photo: NetMag Pakistan)

نوٹ:۔ اس آرٹیکل میں پی ایل جے لاء سائٹ سے مدد لی گئی ہے(راقم)۔

…………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔