پاکستان کے طول و عرض میں موجود یا پائے جانے والی گھریلو صنعتوں، دستکاروں اور ہنر مندوں نے اس کے ثقافتی نقشے کو خوشنما اور عالی شان بنا دیا ہے۔ ان صنعتوں نے نہ صرف بارہ ملین لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کئے ہوئے ہیں بلکہ اس کی وجہ سے صدیوں پرانی تہذیبوں اور اس سے جڑی روایات محفوظ ہوگئی ہیں۔ یہ خودرُو صنعتیں ہیں جو بغیر کسی سرکاری سرپرستی کے پوری دنیا میں مشہور ہوئیں اورجس کی وجہ سے پاکستان کا ایک پُرامن تاثر پھیلتا جا رہا تھا۔ گذشتہ ڈیڑھ عشروں سے جہاں دوسرے شعبہ ہائے زندگی بری طرح متاثر ہوئے، وہاں گھریلو صنعتوں نے تاریخی زوال کا سامنا کیا۔ دوبارہ آبادکاری کے عمل میں گھریلو صنعتوں کو نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے ان صنعتوں کے وجود کو اب خطرات لاحق ہیں۔ بروقت امداد اور سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے بہت سارے ہنر مندوں نے اپنے تاریخی اور آبائی ہنر کوخیر باد کہہ دیا۔ اس صنعتوں سے وابستہ کاریگروں اور دستکاروں کو کوئی دوسرا روزگار نہ ملنا ایک طرف لیکن اس کی وجہ سے یہ صنعتیں دفن ہوتی جا رہی ہیں۔ رہے سہے ہنر مند آجر ان کے رحم و کرم پہ ہیں۔
خیبر پختون خواہ میں اگرچہ مشہورِ زمانہ گھریلو صنعتیں وافر تعداد میں موجود ہیں، اس صوبے میں ان صنعتوں سے وابستہ دستکاروں اور ہنرمندوں کی ترقی اور تحفظ کے لئے ایک بھی پالیسی موجود نہیں۔ کاریگر دوست پالیسی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ لوگ معاشی عدمِ تحفظ کا شکار ہیں اور رزق کے حصول کے لئے دوسرے ذرائع ڈھونڈ رہے ہیں۔ گھریلوصنعتوں میں مشینری کا بے جا استعمال کر کے ہنر مندوں کے لئے مواقع کم کیے جا رہے ہیں۔ تاریخی آثار مٹتے چلے جا رہے ہیں، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

پختونخوا میں ان صنعتوں سے وابستہ دستکاروں اور ہنرمندوں کی ترقی اور تحفظ کے لئے ایک بھی پالیسی موجود نہیں۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

اسلام پور میں موجود اُونی مصنوعات بنانے کی گھریلو صنعت تاریخی اور معاشی طور پر الگ الگ اہمیت کی حامل صنعت ہے۔ اس صنعت نے گاؤں کے اندر اور باہر کئی ہزار لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کئے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف اس صنعت نے پورے خطے میں نمودار ہونے والی ثقافتوں کی نشانیوں کو نہ صرف محفوظ کیا ہے بلکہ ان کو آگے لے کر جا رہی ہے۔ یہاں تیار ہونے والی مردانہ چادروں کے دونوں کناروں پر بُنے ہوئے نمونوں اور نشانوں کو اگر غور سے دیکھا جائے، تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ اس وادی میں نشوونما پانے والی مختلف تہذیبوں کے عکاس ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے دئیے جانے والے چھوٹے اور درمیانے عرصے کے قرضہ جات تک ان لوگوں کی رسائی کئی ایک وجوہات کی بنا پر ممکن نہیں۔ قرضوں کی شرائط سخت، زیادہ اور ناقابلِ عمل ہیں۔ شرحِ سود کی زیادتی اور قرضوں کی واپسی کا طریقہ کار دستکاروں اور ہنرمندوں کے لئے کسی طور سود مند نہیں ہے۔

اسلام پور میں موجود اُونی مصنوعات بنانے کی گھریلو صنعت تاریخی اور معاشی طور پر الگ الگ اہمیت کی حامل صنعت ہے۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

اسلامپور میں اب تک سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع چھوٹے قرضہ جات کی مد میں کافی رقم لوگوں کو دے چکے ہیں، مگر کئی سال گزرنے کے بعد بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ قرضہ جات ان دستکاروں کی ضروریات کے مطابق نہیں تھے۔ اگر چہ اونی مصنوعات کی یہ صنعت ایک تاریخی صنعت ہے اور بین الاقوامی مارکیٹوں میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہے، لیکن ان مصنوعات کو بین الاقوامی بازار کی ضروریات کے مطابق بنانے کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے۔ اس صنعت سے وابستہ دستکاروں اور ہنر مندوں کا استعدادِ کار بڑھانے کے لئے کوئی منظم کام دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ لہٰذاان مصنوعات کو بین الاقوامی مارکیٹ میں نہیں بیچا سکتا۔
موجودہ صوبائی حکومت نے صوبے کی ثقافت اور ثقافتی ورثے کی ترقی کے لئے کلچر ڈائریکٹریٹ کے زیرِ انتظام ایک منصوبہ شروع کیا ہے جو اپنی جگہ اہم ہے۔ اس قسم کا منصوبہ گھریلو صنعتوں کی ترقی کے لئے بھی تیار کیا سکتا ہے جس کے بہتر معاشی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ کاریگروں کی استعداد کاری، مالی معاونت اور بیرونِ ملک مارکیٹ کی تلاش اس منصوبے کے اہم جز ہو سکتے ہیں۔ کئی خطرات کی شکار تاریخی گھریلو صنعتوں کی بقا کو یقینی بنانے کے لئے ڈویژن کی سطح پر دستکاروں کو اکھٹا کرکے گھریلو صنعتوں کی بستی بنانا ایک اہم کام ہے۔ جہاں دستکار اور کاریگر کام کرکے مصنوعات تیار کریں، حکومت ان مصنوعات کو مارکیٹ میں فروخت کرکے ان بستیوں کے اخراجات آسانی سے پورا کرسکتی ہے۔ ان مصنوعات کو بین الاقوامی نمائشوں میں پہنچانے کے لئے حکومت مدد دے، تو کافی زرِمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ ملکی سطح پر خیبر پختون خواہ کے گھریلو صنعتوں کے دستکاروں کو وہ مواقع میسر نہیں جو دوسرے صوبوں خصوصاً پنجاب کے دستکاروں کو حاصل ہیں۔

موجودہ صوبائی حکومت نے صوبے کی ثقافت اور ثقافتی ورثے کی ترقی کے لئے کلچر ڈائریکٹریٹ کے زیرِ انتظام ایک منصوبہ شروع کیا ہے جو اپنی جگہ اہم ہے۔ اس قسم کا منصوبہ گھریلو صنعتوں کی ترقی کے لئے بھی تیار کیا سکتا ہے جس کے بہتر معاشی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

اس طرح اسلامپور کو اگر چہ صنعتی گاؤں کا درجہ تو دیا جاچکا ہے، لیکن دس سال بیت جانے کے با وجود متعلقہ منصوبہ جات کا پتا تک نہیں چل رہا۔ گھریلو صنعتوں اور اس سے وابستہ افرادی قوت کے تحفظ اور ترقی کے ادارے کا قیام ناگزیر ہے۔ اس ادارے کے قیام سے گھریلو صنعتوں کے وجود کو درپیش خطرات کو بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

……………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔