میں اکثر اپنے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ اگر اپنے خوف پر قابو پانا ہے اور اگر زندگی کو صحیح معنوں میں جینا ہے، تو پہاڑوں سے دوستی کرلیں یا فٹ بال کے میدان میں اُتر جائیں۔ یہ زندگی فٹ بال کا میدان ہی تو ہے۔ جس طرح فٹ بال میں ایک پوری ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح زندگی کی گاڑی کو دھکیلنے اور متحرک رکھنے کے لئے بھی ایک ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارا گھر ٹیم ہی تو ہے۔ والد بزرگوار کوچ، والدہ ماجدہ منیجر، آپ خود ٹیم کے کپتان، چھوٹے بہن بھائی مختلف پوزیشنوں پر کھیلنے والے کھلاڑی،زندگی کھیل اور دنیا اس کی خاطر میدان۔ اب جیتے گی وہی ٹیم، جس میں ہم آہنگی ہوگی، جو پوزیشن سنبھالنا اوراس پر آخری لمحے تک لڑنا جانتی ہوگی، ورنہ پھر شکست کا راستہ روکنا محال ہوجاتا ہے۔
اس طرح پہاڑوں کے حوالہ سے پیر و مرشد کا پوائنٹ آف ویو بڑا دلچسپ ہے۔ ان کے خیال کو اگر اپنے الفاظ کا جامہ پہناؤں، تو نچوڑ کچھ یوں پیش کیا جاسکتا ہے کہ ’’جس طرح سونے کو پرکھنے کے لئے کسوٹی کی ضرورت ہوتی ہے، ٹھیک اُسی طرح آدمی کو پرکھنے کے لئے پہاڑ کو ضروری سمجھ لیں۔ آدمی کا تب پتا چلتا ہے، جب گھر سے دور بہت دور پہاڑوں میں اُس کی ضرورت کسی کو پڑ جاتی ہے۔ خوراک محدود، بسا اوقات پانی بھی محدود، بدن تھکن سے چور مگر دوسرے کو آپ کی مدد، آپ کی ہمدردی کی ضرورت ہے۔ اس وقت آپ کے پاس دو چوائس ہوتے ہیں۔ اگر آپ انجان بن کر اپنی راہ لیتے ہیں، تو آپ سے بڑا خود غرض اس دنیا میں کوئی نہیں۔ اور اگر آپ مڑ کر ساتھ چلنے والے کو ہاتھ دے کر اسے اٹھاتے ہیں اور ہمرکاب بنانے کی خاطر اس کا حوصلہ بڑھاتے ہیں، تو آپ کاجواب نہیں۔‘‘

رائزنگ سوات نامی سرگرمی دیکھنے کے لئے لنک کلک کیجئے: https://lafzuna.com/video/s-3814/

تمہید شائد کچھ زیادہ طول پکڑ گئی، اس لئے باقی ماندہ’’علمی دھاک‘‘ کسی اور نشست میں بٹھانے کی کوشش کرلیں گے۔ سرِدست بارے اس پروگرام کے بھی کچھ بیان ہوجائے جو رواں مہینے کی 3 تاریخ کو فاطمہ جناح پارک اسلام آباد میں منعقد ہوا اور جس میں پورے پاکستان سے مختلف چھوٹے بڑے ٹریکنگ کلبوں کے ممبران نے شرکت کی۔ راقم کو بھی مذکورہ پروگرام میں ’’ری ایکسپلورنگ سوات‘‘ کے عنوان سے کچھ بولنے اور پیش کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اس حوالہ سے سوات سے تقریباً 20 ارکان پر مشتمل ٹیم روانہ ہوئی، جس میں ایس پی ایس ٹریکنگ کلب کے 14 اور ایڈونچر کلب سوات میڈیکل کالج کے 6 ارکان شامل تھے۔ ایس پی ایس ٹریکنگ کلب کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عبدالہادی (ہرٹ سپیشلسٹ) میرِ کارواں تھے۔ پروگرام تقریباً صبح 11 بجے شروع ہوا۔ راقم سے پہلے آفتاب رانا صاحب نے کسی بھی جگہ کی ٹریکنگ کے لئے اول سے کی جانے والی تیاری پر مفصل روشنی ڈالی۔ اس کے بعد ایک اور پریزنٹیشن اور چائے نوش جاں فرمانے کا وقفہ ہوا۔ واپس آنے کے بعد میرا کام سوات کے اُن حسین گوشوں سے پردہ اٹھانا تھا، جو اُس وقت تک باقی ماندہ دنیا کی نظروں سے اوجھل تھے۔ ہماری ٹیم نے باہمی مشاورت کے نتیجے میں’’رائزنگ سوات‘‘ کے نام سے ایک چھوٹی سی ڈاکومنڑی تیار کی تھی، جس میں سوات کی 5 خوبصورت ترین جھیلوں کے مختلف مناظر دکھائے گئے تھے۔ مشرق ٹی وی سوات کے ویڈیو ایڈیٹر محترم مہر علی شاہ المعروف باچا نے ڈاکومنٹری کچھ اس انداز سے تیار کی تھی کہ ختم ہونے تک ہال میں موجود پہاڑوں سے عشق کرنے والے اتنے منہمک بیٹھے تھے کہ انہیں دو منٹ کی محیط ویڈیو میں سکرین سے نظر ہٹانے کا موقع تک نہ ملا۔ آخری منظر کا چلنا تھا کہ ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔

اینول ٹریکرز میٹ اپ اسلام آباد، 2017ء میں سوات کی ٹیم کی ٹوورازم ڈیپارٹمنٹ کے جی ایم اور سیاح ٹوورز کے جی ایم کے ساتھ باجماعت تصویر

ویڈیو پیش کرنے سے پہلے میں نے تمہید کچھ ان الفاظ میں باندھی تھی کہ ’’مَیں امجد علی سحابؔ سوات سے تعلق رکھتا ہوں۔ اُس سوات سے نہیں جسے پاکستانی میڈیا نے اپنے کیمروں کے ذریعے آپ کو دکھایا ہے بلکہ میں اُس سوات سے تعلق رکھتا ہوں جس کے مناظر ہم آپ کو آج دکھانے جا رہے ہیں۔ ساتھ ایک گزارش بھی کرتا چلوں کہ سوات کو ایشیا کا سوئٹزر لینڈ ہر گز نہ کہیں۔ سوات، سوات ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایسا کرنے سوات کا تشخص برقرار نہیں رہتا۔ میرا دعویٰ ہے کہ خدائے لم یزل نے اتنی فیاضی سے اس قطعۂ زمین کو نوازا ہے کہ اس کی تشبیہ دنیا میں کسی بھی خوبصورت جگہ سے نہیں دی جاسکتی۔ کیوں کہ سوات کی خوبصورتی بے مثال ہے۔ اگر اس وقت مجھ پر کسی کو مبالغہ آرائی کرنے کا گمان گزر رہا ہو، توپشتو کہاوت ’’دا گز او دا میدان‘‘ (یعنی ابھی اپنے کہے کو ثابت کئے دیتے ہیں) کے مصداق ویڈیو پیشِ خدمت ہے۔
قارئین کرام! ویڈیو چلنے کے بعد جب داد و تحسین کے ڈونگرے برسنے لگے تو مجھے احساس ہوا کہ میرے دعویٰ پر مہر تصدیق ثبت ہوچکی۔ اس کے بعد جتنے علاقوں کی ڈاکومنٹریاں چلیں، اس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ واقعی سوات، سوات ہے۔ روئے زمین پر اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
دئیے گئے 10 منٹ کے محدود وقت میں راقم نے سوات کی پانچ بہترین جھیلوں، بشیگرام اور خاص کر فلک سیر بیس کیمپ بارے حاضرین کو آگاہ کرنا تھا۔ ماحول سازگار تھا، دوسری ویڈیو بشیگرام جھیل کے حوالہ سے تھی، جسے بھی پذیرائی حاصل ہوئی جبکہ رہی سہی کسر سوات کی بلندی ترین چوٹی فلک سیر کے بیس کیمپ پر ہماری ٹیم کی تیار کی گئی ڈاکومنٹری نے پورا کر دی۔
راقم کے بعد ٹیم ممبر عرفان اللہ صاحب نے ایس پی ایس ٹریکنگ کلب کی سال کی سب سے بڑی سرگرمی ’’تانگیر ٹو پھنڈر ٹریک‘‘ کی کتھا حاضرین کے گوش گزار کی۔ اس حوالہ سے بھی ایک ویڈیو تیار کی گئی تھی، جسے حاضرین نے سراہا۔
پروگرام میں ہمارے علاوہ دیگر ٹیموں کے مقررین نے بھی اپنی اپنی سرگرمی پر مفصل روشنی ڈالی۔ پروگرام کی ایک اور خاص بات جبار بھٹی صاحب کی کہانی تھی کہ کس طرح انہوں نے آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر موت کو شکست دی اور وہاں سبز ہلالی پرچم لہرا کر واپس ہوئے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انہیں رگوں میں خون منجمد کرنے والی سردی میں اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے محروم ہونا پڑا، مگر تاریخ میں اپنا نام رقم کرکے ہی دم لیا۔

اینول ٹریکرز میٹ اپ اسلام آباد، 2017ء میں کرنل عبدالجبار بھٹی بھی تشریف فرما ہیں۔ (فوٹو: اظہر الدین)

یوں یہ پروگرام شام ساڑھے پانچ بجے ختم ہوا اور سوات کی بہترین نمائندگی کرنے کے بعد ہماری ٹیم سوات کے لئے رختِ سفر باندھ کر واپسی کے لئے پر تولنے لگی۔

…………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔