اسلام آباد میں زندگی گزشتہ کئی دنوں سے معطل ہے۔ شہر کے داخلی دروازوں پر کنٹینرز کھڑے کرکے انہیں بند کر دیا گیا ہے۔ مرکزی شاہراؤں پر ٹرکوں کی بھیڑ ہے کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ بیمار، طالب علم اور مسافر خجل خوار ہیں۔ کچھ معلوم نہیں کہ فریاد اور داد رسائی کے لیے کس دروازے پر دستک دیں؟ راولپنڈی اور اسلام آباد میں انتظامیہ کے پاس سیاسی جلسہ جلوسوں اور احتجاج سے نبردآزما ہونے کا ایک ہی علاج ہے۔ وہ کنٹینرز کھڑے کرکے راستہ بند کر دیتی ہے۔ انٹرنٹ اور موبائل سروس معطل کرکے خوشی کے شادیانے بجاتی ہے۔ سالہاسال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ دارلحکومت اسلام آباد کو محفوظ بنانے کے نام پر شہریوں کو یرغمال بنالیا جاتاہے۔ لاک ڈاؤن یقینی بنانے کے بعد مشیرانِ باتدبیر وزیراعظم کو رپورٹ دیتے ہیں کہ راوی چین ہی چین لکھتاہے۔
احتجاج، جلسہ اور جلوس دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن کہیں بھی مرکزی شاہراہیں بند ہوتی ہیں نہ معمول کی زندگی معطل ہی ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور احتجاجی گروہوں کو قانون کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔ یہاں عالم یہ ہے کہ احتجاج یا دھرنے کے شرکا دھڑلے سے گاڑیاں توڑتے ہیں۔ مخالفین کی املاک پر حملے کرتے ہیں اور راہ گزرتے مسافروں کی زندگی اجیرن بنادیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آزادی کے سات عشرے گزارنے کے مابعد بھی ہماری سیاسی جماعتیں اورسرکاری مشینری پُرامن احتجاج کو ممکن بنانے کے قابل کیوں نہ ہوسکی؟ اکثر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی احتجاج یا جلسہ سے قبل حکومت سے باضابطہ اجازت لی جاتی ہے۔ احتجاج میں شریک شرکا کے تحفظ کی ذمہ داری بھی سیاسی جماعت اٹھاتی ہے۔ وہ حکومت کو یقین دہانی کراتی ہے کہ احتجاج میں کسی قسم کا دھنگا فساد ہوگا اور نہ ہی پیدل چلنے والوں کے راستے میں رکاؤٹیں کھڑی کی جائیں گی۔ ان یقین دہانیوں کے باوجود ہجوم کنٹرول میں رہتا ہے اور نہ لیڈرکسی قاعدہ قانون کو تسلیم کرتے ہیں۔

احتجاج، جلسہ اور جلوس دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن کہیں بھی مرکزی شاہراہیں بند ہوتی ہیں نہ معمول کی زندگی معطل ہی ہوتی ہے۔ (فوٹو بہ شکریہ ڈیلی میل)

راقم الحروف لگ بھگ گذشتہ تیس برس سے جلسے جلوسوں میں شوق سے شرکت کرتا ہے۔ تحریک انصاف کے دھرنے کے دوران میں درجنوں مرتبہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے خطاب سننے اور دھرنوں کے سامعین کے ساتھ تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔ نون لیگ کے جلسوں میں شرکت کی اور جماعت اسلامی کی تقریبات میں بھی۔ کیونکہ کوئی بھی تجزیہ کار محض ٹی وی چینلز اور اخبارات کی کلپنگ پر انحصار کرکے سیاسی تحریکیوں اور جماعتوں کی سرگرمیوں کے پس منظر میں کار فرما روح کا ادراک نہیں کر سکتا۔ سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے ساتھ براہِ راست تبادلۂ خیال کا یا ان کی سرگرمیوں کے مشاہدے کی بنا پر ان کی حکمت عملی بارے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تواتر کے ساتھ یہ تلخ حقیقت مشاہدے میں آئی جب ان جماعتوں کے لیڈروں کے ہجوم ہاتھ لگ جاتاہے، تو وہ بے قابو ہوجاتے ہیں۔ کارکنوں کو نظم وضبط سکھانے اور تہذیب کے دائرے میں رہنے کی تلقین کرنے کے بجائے انہیں اشتعال دلانا شروع ہوجاتے ہیں۔ حکومت اور انتظامیہ کو دھمکانے لگتے ہیں۔ چند ہزار لوگوں کے بل بوتے پر پارلیمنٹ ہاؤس پر قبضے کے خواب دیکھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اپنی طاقت اور صلاحیت کا غلط اندازہ لگاتے ہیں۔ دنیا بھر کا میڈیا یہ تماشا لائیو دکھاتا ہے۔ اخبارت میں شہ سرخیوں سے پاکستان کے بارے میں منفی خبریں چھپتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ دارالحکومت اسلام آباد پر ایک سیاسی یا مذہبی جماعت نے یلغار کر دی ہے۔ میڈیا کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے سفارتی مشن اپنی حکومتوں کو لکھتے ہیں کہ اس ملک میں ریاست کی عملداری بکھر چکی ہے۔ احتجاجی گروہ کسی بھی وقت دارالحکومت پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ لمبی چوڑی تحقیق کے بغیر پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے جن کا سفر خطرے سے خالی نہیں۔ کئی ایک ممالک اپنے شہریوں کو منع کر دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کا سفر نہ کریں۔ حالیہ برسوں میں درجنوں ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جنہیں خاندان اور دوستوں نے پاکستان کے سفر سے منع کیا۔
پاکستان کے اکثر ائیرپورٹوں پر الو بولتے ہیں۔ تلاشِ بسیار کے بعد بھی کوئی غیر ملکی مسافر نظر نہیں آتا۔ دنیا کے اکثر ممالک کے لیے پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن نے اپنی فلائٹیں منسوخ کرچکی ہے۔ نیویارک ایک منافع بخش اسٹیشن تھا، وہاں بھی پی آئی اے کی فلائٹ بند کردی گئی۔ اس کے برعکس پڑوسی ملک بھارت کا محض گذشتہ سال بارہ لاکھ امریکیوں نے سفر کیا۔ آپ حیران ہوگئے کہ اس سال اگست میں سات لاکھ غیر ملکیوں نے بھارت کی سیاحت کی۔

پاکستان کے اکثر ائیرپورٹوں پر الو بولتے ہیں۔ تلاشِ بسیار کے بعد بھی کوئی غیر ملکی مسافر نظر نہیں آتا۔ (فوٹو بہ شکریہ ڈان)

چند ہفتے قبل نیپال جانے کا موقع ملا۔ غریب سا ملک ہے مگر کھٹمنڈو ائیرپورٹ پر فرنگیوں کے ہجوم کے ہجوم چلے آتے ہیں۔ امیگریشن افسر نے بتایا گذشتہ سات ماہ میں چھے لاکھ غیر ملکی نیپال کی سیر کرچکے ہیں۔ آپ یقین نہیں کریں گے کہ بنگلہ دیش کی حکومت اگلے سال دس لاکھ سیاحوں کا استقبال کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ پاکستان کے ائیرپورٹ خلیجی ریاستوں میں کام کرنے والے ہنرمند پاکستانیوں کی بدولت آباد ہیں۔ افسوس! اب برطانیہ اور امریکہ میں آباد پاکستانیوں کی نئی نسل بھی پاکستان کاسفر کرنے سے اجتناب کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آخر کیوں وہ روپیہ بھی خرچ کریں، تفریح بھی نہ کرسکیں اور مفت کی ٹینشن بھی لیں۔ میرپور شہر کے ایک بینک افسر نے بتایا کہ ہزاروں لوگ اپنا روپیہ نکال کر دوبئی میں جائیداد کی خرید وفرخت میں لگا رہے ہیں۔ کئی ارب روپیہ اس شہر کے بینکوں سے نکل چکا ہے۔ اگر لاکھوں سیاح ہمارے پڑوسی ممالک کا سفر کرسکتے ہیں، تو وہ پاکستان بھی آسکتے ہیں۔

گذشتہ سات ماہ میں چھے لاکھ غیر ملکی نیپال کی سیر کرچکے ہیں۔ (فوٹو بہ شکریہ ورلڈ اٹلس)

پاکستان میں بھی سیاحت کے لیے فلک بوس پہاڑی چوٹیاں ہیں۔ سمندر ہے، لق ودق صحرا ہے اور ملک کے شمال میں سرسبز وادیاں، گیارہ سو کلومیٹر طویل ساحل لیکن اس کے باوجود غیر تو غیر اب اپنے بھی وطن عزیز کا رخ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ پاکستان کو حقیقت میں ایک پُرامن ملک بنانے کے لیے ریاست کے تمام اداروں اور سماج کے تمام دھڑوں کو مشترکہ حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔ حکومت، سیاسی جماعتوں، الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کومل بیٹھ کر ایک ضابطۂ اخلاق وضع کرنا چاہیے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ ہر کوئی لشکر لے کر دارالحکومت پر چڑھ دوڑے اور انتظامیہ سڑکوں پر ٹرک کھڑے کرکے لاک ڈاؤن کر دے۔ احتجاج اور جلسے جلوسوں کے انعقاد کے حوالے سے واضح حکمت عملی بنانی چاہیے۔ ایک بار متفقہ پالیسی بن جائے، تو اس پر بلا کسی رو رعایت کے عمل درآمد کرایاجائے۔شہروں میں اتوار کے علاوہ جلسہ یا احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جلسوں اور احتجاج کے لیے ہر شہر میں ایک مخصوص مقام مختص کیا جائے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے بھی شہریوں کو آگہی فراہم کی جائے کہ وہ کس طرح احتجاج کے جدید طریقے اختیار کرسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا استعمال کریں، پٹیشن کریں یا دستخطی مہم چلائیں لیکن طاقت کے زور پر شہریوں پر اپنا نقطۂ نظر مسلط کرنے یا حکومت کو بزورِ بازو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ کریں۔

…………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔