ہمارے کالج دور میں سیاسیات کے ایک پروفیسر صاحب تھے، شہباز صاحب۔ اگر سر زندہ ہیں، تو خدا اُن کو صحت دے…… اور اگر وہ دنیا سے جاچکے ہیں، تو اﷲ اُنھیں غریقِ رحمت کرے۔ کیوں کہ قریب پچھلے 35 سال سے اُن سے رابطہ نہیں ہوپایا۔
پروفیسر شہباز صاحب بائیں بازو کے باغی مزاج اور امریکہ کے شدید مخالف شخص تھے۔ سرکاری ملازم ہونے کے باجود واضح حمایت پیپلز پارٹی کے ساتھ رکھتے تھے۔ وہ بھی ضیا آمریت کے دوران میں۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
پروفیسر صاحب راوی ہیں کہ یہ شاید سنہ 79ء یا 80ء کی بات ہے کہ ایک دن اچانک یہ خبر ملی کہ ضیا کی حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر چھاپنے پرپابندی لگا دی ہے۔ اخبارات پر سنسر تو تھا ہی اور پوری کی پوری اخبار سفید نظر آتی تھی، لیکن خبروں کے حوالے سے مگر تصویر کی پابندی پہلی دفعہ ہوئی۔ پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ جب یہ خبر ملی، تو وہ ایک دانش ور کے پاس بیٹھے تھے اور یہ دانش ور ذہنی طور پر بھٹو صاحب کے طرزِ حکومت اور اندازِ سیاست کے مخالف تھے…… مگر انھوں نے بہت عادلانہ تبصرہ کیا اور کہا کہ ضیا کو جا کر کوئی بتائے کہ بنو امیہ کی سنت پر چل کر وہ بھٹو کو مزید مقبول اور مظلوم مت بنائے۔
بقولِ پروفیسر صاحب جب اس کی وضاحت مانگی گئی، تو اُس دانش ور شخص نے بہت کمال کی بات کی اور کہا کہ شہباز! تاریخ دیکھو، بنو امیہ نے ہاشمی دشمنی میں آلِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف کیا کچھ نہ کیا۔ اُن کا نام لینا جرم قرار دے دیا۔ اُن کے خلاف بے تحاشا پروپیگنڈا کیا، لیکن دیکھ لو، سب ’کاؤنٹر پروڈکٹیو‘ ہوا۔ جانتے ہو اس کی وجہ محض یہ تھی کہ تاریخ کا انصاف بہترین انتظامیہ، مضبوط حکومت یا کامیاب سیاست نہیں کرتی…… بلکہ صرف اخلاقی اقدار کرتی ہیں۔ اگر اخلاقی طاقت کم زور ہوں، تو آپ ہزار بار کربلا برپا کر دیں، فاتح حسین ہی ہوگا…… اور جب سے بنی نوع انسان کا وجود اس کرۂ ارض پر آیا، میدان میں طاقت فتح یاب ہو جاتی ہے، لیکن تاریخ اخلاقی اقدار کے ساتھ رہتی ہے۔
سو تجربہ نے اُن دانش ور کی بات درست ثابت کر دی۔ بہت کم عرصہ میں اخبارات تو رہے ایک طرف، سرکاری ٹیلی وِژن پر بھٹو کو شہید قرار دیا گیا اور بھٹو کے ترانے ریڈیو پاکستان پر نشر ہونا شروع ہوگئے۔ ہمیں یہ واقعہ لکھنے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ موصولہ اطلاع کے مطابق سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے بیانات پر پیمرا کی جانب سے پابندی عائد کر دی گئی۔ اب آپ کسی چینل پر خان صاحب کا کوئی بیان، کوئی خبر نشر کرسکتے ہیں، نہ دکھا سکتے ہیں ۔ مجھے اس خبر کو سن کر عجیب تو لگا، لیکن ہنسی ضرور آئی۔ آج سے صدیوں قبل سے لے کر…… چلو بھٹو صاحب کے وقت تک آپ وقتی طور پر یہ کنٹرول کرسکتے تھے، لیکن اس سوشل میڈیا کے دور میں یہ عملاً ممکن بھی نہیں۔
دوسرا جیسے کہ اُوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ اس کا فائدہ تاریخ میں کبھی کسی کو ہوا تو نہیں، تو پھر کون سے دانش ور اور عقل مند ہیں کہ جو یہ مشورہ حکومت کو دے رہے ہیں…… اور اس سے زیادہ مجھے حیرت یہ ہوئی کہ اس حکومت کے بڑے حصہ دار محض مولانا فضل الرحمان نہیں بلکہ بلوچستان قوم پرست جماعتیں، ایم کیو ایم اور سب سے بڑھ کر پیپلز پارٹی ہے۔ اب اگر محترمہ بینظیر بھٹو کا ’’سب سے یاری‘‘ کا دعوے دار شوہر آصف زرداری اور بی بی کا بیٹا اس بچکانہ حکم کے ساتھ ہیں، تو پھر پاکستانی جمہوریت پر فاتحہ پڑھنا بنتا ہے۔
ایم کیو ایم تو کل کی بات ہے…… آپ نے بانی تحریک کے ساتھ یہی کیا، لیکن کیا ہوا؟ بانی کے بغیر ایم کیو ایم کی اہمیت ختم ہوگئی اور آج کراچی میں ووٹنگ کی شرح 25 فی صد بھی نہ رہی۔ کیوں کہ الطاف کی مقبولیت بڑھ گئی۔ ہم بحیثیتِ پاکستانی اس غلط حکم کی مذمت کرتے ہیں اور اس کو واپس لینے کی درخواست کرتے ہیں۔ عمران خان کا مقابلہ میدان میں کیا جائے۔ اب جب آپ نے کامیاب سیاسی حکمتِ عملی سے عمران خان کو سیاست سے تقریباً آؤٹ کر دیا ہے، ان کی مرکزی و صوبائی حکومتیں ختم کر دی ہیں، کشمیر میں بھی آپ مرضی کا وزیرِ اعظم لے آئے اور شاید گلگت بلتستان میں بھی کام ہونے والا ہے، اُن کی جماعت کے بڑے پلیئر تاش کے پتوں کی طرح بکھرچکے ہیں، تو پھر مسئلہ کیا ہے…… اور اگر آپ پھر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ کرنے کے باجود بھی آپ جیسی بڑی اور تجربہ کار جماعتوں کے مقابل عمران خان اب بھی مقبول ہے…… اور انتخابات کی صورت میں وہ جیت سکتا ہے، تو اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ آپ عوام کی رائے کا احترام کریں۔ کیوں کہ آپ کے تو نعرے ہی یہی ہیں کہ بقولِ ن لیگ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اور پیپلز پارٹی شروع دن سے یہ کَہ رہی ہے کہ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘تو پھر عوام کی رائے کا احترام لازم ہے۔ البتہ آپ کو یہ سیاسی حق ضرور ہے کہ آپ عوام کو عمران خان کی غلطیاں یا خرابیاں بتائیں اور پھر فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں…… لیکن ملک کے عام عوام، سیاسی تجزیہ نگار، صحافی اور سول سوسائٹی کسی صورت میں حکومت کی طاقت اور انتظامی زور پر تحریکِ انصاف کو ختم کرنے یا باہر کرنے کی حماقت نہیں قبول کرسکتی…… بلکہ مجھے تو یہ خدشہ ہے کہ کہیں سول سوسائٹی اس پر شدید ردِعمل نہ دے اور پھر شاید پی ڈی ایم بشمول پیپلز پارٹی کولینے کے دینے پڑسکتے ہیں۔
آخر آپ کب تک اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کرایک سیاسی جماعت جو ملک کے نوجوانوں میں مقبول بھی ہے، کو سیاسی اکھاڑے سے باہر کر سکتے ہیں؟ دوسرا میرا خیال ہے کہ اب خان صاحب کو بھی حقائق کا ادراک ہوچکا ہے اور وہ طاقت و مقبولیت کے نشے سے باہر آچکے ہیں۔ سو اس وقت اُن کو انگیج کرنا نسبتاً آ سان بھی ہے اور ضروری بھی۔ آپ تحریکِ انصاف سے مل کر الیکشن کی تاریخ اور طریقۂ کار پر اتفاق کر لیں اور میدان سجا لیں۔ البتہ ہم پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ اگر خان صاحب نے 9 مئی کے حوالے سے کچھ غلط کیا، یا دوسرے معاملات جیسے فارن فنڈنگ یا القادر یونیورسٹی وغیرہ، تو بے شک اُن پر مقدمات بنائے جائیں، لیکن کیس کا ٹرائل صاف و شفاف ہو…… مگر یہ تو کسی حساب سے بھی قابل قبول نہیں کہ آپ سابق وزیرِاعظم اور ملک کے مقبول راہنما کو ’’سکرین آف‘‘ کر دیں۔ اِس کا نہ تو اثر ہونا ہے اور نہ مطلوبہ نتائج کا حصول۔ اُلٹا ہماری سول سوسائٹی تو ردِعمل دے گی ہی، لیکن بیرونِ ملک ہماری جگ ہنسائی ہوگی اورشاید مغربی ممالک اُس کو برداشت بھی نہ کریں۔ یہاں ہم ملک کی دوسری دو بڑی جماعتوں کو ایک اور دعوتِ فکر بھی دینا چاہتے ہیں…… اور وہ یہ کہ خود کو کچھ لمحات واسطے ماضی میں لے جائیں۔ مثلاً: جب ضیا کی آمریت نے ذوالفقار علی بھٹو کی تصاویر پر اخبارات میں پابندی لگائی تھی، تو پیپلز پارٹی کے راہنما تب کیا یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح بھٹو کی مقبولیت واقعی ختم ہو جائے گی اور پاکستان پیپلز پارٹی عوامی ساکھ سے محروم ہو جائے گی…… یا پھر جب مشرف آمریت نے میاں نواز شریف کو ہائی جیکر بنا کر اور بطورِ غدار عوام میں پیش کیا تھا، تو تب ن کے راہنما اس بات پر یقین کرتے تھے کہ اب اس طرح نواز شریف عوام میں قابلِ نفرین بن جائیں گے…… یا ن لیگ سیاسی طور پر تباہ و برباد ہو جائے گی؟ میرا خیال ہے ایسا بالکل نہیں، بلکہ ہم یہ یقین سے کہتے ہیں کہ تب پیپلز پارٹی کے راہنما ہوں یا ن لیگ کے، اس حکومتی حکمت عملی کا مذاق اُڑاتے تھے اور تاریخ سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مثالیں لاتے تھے کہ عوامی جماعتوں اور عوامی قائدین کی مقبولیت کسی مصنوعی یا انتظامی عمل سے ختم نہیں کی جاسکتی۔ یہ غیر فطری عمل ہمیں عوام میں مزید مقبول ہونے کا موقع دے گا۔
تو پھر اب یہ عمل کس طرح عمران خان اور تحریکِ انصاف کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے…… اور تاریخ نے یہ ثابت بھی کیا کہ آپ نے بھٹو کو لٹکا دیا، ’’پارٹی از اُوور‘‘کا پروپیگنڈا کیا، ہزاروں جیالوں کو کوڑے لگوائے، پھانسیاں دیں اور جیل دھکیل دیا، لیکن کیا ہوا؟ آپ نے آئی جے آئی بنائی، بدترین دندھلی کی، مگر اس کے باجود بھٹو کی بیٹی مکمل شان سے آگئی اور وزیرِاعظم پاکستان بن گئی۔
اسی طرح آپ نے ن لیگ کے پرخچے اُڑا دئے جوڑ توڑ کے ریکارڈ قائم کر دئے۔ ن لیگ کو صرف چودہ نشستوں تک محدود کر دیا اور نتیجہ کیا نکلا، بالآخر صرف 14 سال بعد نواز شریف پوری طاقت کے ساتھ تیسری بار وزیرِ اعظم پاکستان بن گئے۔ یہ حقیقت ثابت ہوگئی کہ کسی بھی عوامی راہنما اور جماعت کو آپ انتظامی طاقت سے ختم کرسکتے ہیں اور نہ غیر مقبول۔ ہاں! آپ نظام کو فطری طریقہ سے چلتے رہنے دیں، تو جو راہنما اور جماعتیں عوام کو ڈیلیور نہ کریں گی، وہ خود بخود ختم ہونے کے منطقی راستے کی مسافر بن جائیں گی۔
سو ہم ایک بار پھر ہاتھ جوڑ کر طاقت کے ایوانوں سے یہ اپیل کریں گے کہ وہ بے شک اگر کسی کا ثابت شدہ جرم ہے، تو کارروائی کریں، لیکن تحریکِ انصاف سے زیادتی اور انتقامی رویہ مت رکھیں۔ آج جو ملک میں ہو رہا ہے، اس کو فوراً بند کیا جائے۔ عمران خان اور تحریکِ انصاف کو بھی سیاست کا اتنا ہی حق ہے کہ جتنا کسی اور شخص یا جماعت کا۔ہم یہاں غیر جانب دار صحافتی اور سول سوسائٹی کے حلقوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ وہ انتقام کی مخالفت اور حق کی آواز بن رہے رہیں۔ مثال کے طور پر سلیم صافی، شاہ زیب خان زادہ، حامد میر، عاصمہ شیرازی، ثنا بچہ وغیرہ جیسے لوگ کہ جن کو تحریکِ انصاف کے کارکنان حق گوئی پر دن رات گالیاں دیتے تھے، وہ لوگ آج اس انتظامی کریک ڈاؤن کی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں…… بلکہ اُس عمران ریاض کے لیے بھی آواز بلند کر رہے ہیں کہ جو معروف اداکارہ وینا ملک کی ٹوئیٹر آئی ڈی کو ہینڈل کرتا تھا اور وہاں سے بہت ہی ننگی و فحش گالیاں ان خواتین و حضرات کو پڑتی تھی۔ بہرحال اس تمام پیچدگی کا حل ایک ہی ہے جو ہم نے گذشتہ تحریر میں لکھا تھا کہ سانحۂ 9 مئی کو بس ایک فوج داری جرم کی طرح لیا جائے۔ ذمے داران پر مقدمات بنائے جائیں، لیکن اس کی آڑ میں سیاسی حکمت عملی تشکیل دے کر تحریکِ انصاف کے خلاف انتقامی رویہ سے اجتناب کیا جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔